کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 387
تاریخ اسلام کے بہت سے گوشے مخفی رہ جائیں گے۔ اس لئے احادیث ِنبوی اسلام اور اسلامی تاریخ کا بڑا قیمتی سرمایہ ہیں اور اسی پران کی عمارت قائم ہے۔‘‘
(تذکرۃ المحدثین: ج۱ /ص۷)
فتنہ انکار حدیث کے متعلق پیش گوئی اور اسکی مختصر تاریخ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ ایک وقت آئے گا کہ میری حدیث کا انکار کردیا جائے گا اور صرف قرآن مجید ہی کو تسلیم کیا جائے گا۔حدیث ِنبوی ہے:
’’میں تم میں سے کسی کو ایسا کرتے نہ پاؤں ، (یعنی ایسا نہ ہو) کہ وہ اپنی مسہری (یا آرام کرسی) پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور جب اس کے سامنے میرے احکامات سے کسی بات کا امر یا کسی چیز کی ممانعت آئے تو وہ کہنے لگے کہ میں کچھ نہیں جانتا ہم تو جو قرآن مجید میں پائیں گے، اسی کو مانیں گے۔ ‘‘
(مشکوٰۃ المصابیح: ص۲۹)
منکرین حدیث کے جو گروہ پیدا ہوئے، ان کی ایک فہرست شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم نے مرتب کی ہے۔مولانا سلفی مرحوم لکھتے ہیں :
’’خوارج نے ۲۰۰ھ میں ان احادیث کا انکار کیا جو اہل بیت کے فضائل میں تھیں اور ان کے بعد شیعہ حضرات نے ان احادیث کا انکار کیا، جو صحابہ کرام کے فضائل میں تھیں ۔اور معتزلہ اور جہمیہ فرقوں نے احادیث ِصفاتِ الٰہی کا انکار کیا۔۲۲۱ھ میں قاضی عیسیٰ بن ابان اور ان کے متبعین اور ان کے ساتھ متاخرین فقہا قاضی ابو زید بوسی وغیرہ نے ان احادیث کا انکار کر دیاجو غیر فقیہ صحابہ کرام سے مروی ہیں ۔ ۴۰۰ھ کے بعد معتزلہ اور متکلمین نے اُصول، فروع دونوں میں خبر واحد سے اختلاف کیا۔
۱۳۰۰ھ کے قریب قریب مولوی چراغ علی اور سر سید احمد خاں نے احادیث کو تاریخ کا ذخیرہ قرار دیا۔ اور اپنا یہ اُصول بنایا کہ جو حدیث نیچر کے موافق ہو گی، وہ قابل قبول ہے اور جو نیچر کے موافق نہیں ، وہ قابل قبول نہیں …۱۳۰۰ھ کے بعد ایک ایسا گروہ آیا جس نے احادیث کا بالکلیہ انکار کر دیا۔ اس گروہ میں مولوی عبد اللہ چکڑالوی ، مستری محمدرمضان گوجرانوالہ، مولوی حشمت علی لاہوری اور مولوی رفیع الدین ملتانی شامل تھے… ان کے بعد ۱۴۰۰ھ میں ایک گروہ اور نمودار ہواجنہوں نے قرآن وحدیث اور پورے دین اسلام کو ایک کھیل قرار دیا۔ اور ایک سیاسی نظریہ قائم کیا کہ اس میں ردّوبدل کیا جا سکتا ہے۔ اس گروہ میں مولوی احمد الدین امرتسری اور مسٹر غلام احمد پرویز شامل تھے… ان کے ساتھ کچھ حضرات ایسے بھی سامنے آئے جنہیں منکرین حدیث کے گروہ میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔لیکن ان کے اندازِ فکر سے حدیث کا استخفاف اور استحقار معلوم ہوتا ہے اور طریقہ گفتگو سے انکارِ حدیث کے چور دروازے کھل سکتے ہیں ۔ اس گروہ میں مولانا شبلی مرحوم، مولانا حمید الدین فراہی، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی،اور عام فرزندانِ ندوہ باستثنائے حضرت سید سلمان ندوی رحمہ اللہ شامل ہیں ۔‘‘ (حجیت ِحدیث: ص ۱۱۴)