کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 368
کہئے کہ انہوں نے ہر حدیث کو قرآن کی طرح تسلیم کیا، اس لئے کہ حدیث کے ماننے کا حکم قرآن میں ہے۔ چنانچہ وہ خاتون ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا جواب سن کر مطمئن ہوگئی۔قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں میں ایسا ہی طرز عمل پایا جاتا تھا۔ حدیث کتاب اللہ ہے! حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور زید بن خالد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ’’ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی اثنا میں ایک شخص کھڑا ہوا اور ا س نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ ہمارے درمیان ’کتاب اللہ‘ سے فیصلہ کردیجئے، پھر فریق ثانی کھڑا ہوا… وہ زیادہ سمجھ دار تھا… اس نے بھی کہا : اقض بیننا بکتاب اللَّہ اور پھر فیصلہ طلب واقعہ یوں سنایا کہ میرا لڑکا اس شخص کے ہاں مزدور تھا ، اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا، میں نے اس کی طرف سے سو بکریاں اور ایک خادم بطورِ فدیہ ادا کیا پھر میں نے اہل علم سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے لڑکے کو سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا دی جائے گی اور اس کی بیوی کو سنگسار کیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ میں ضرور تمہارا فیصلہ ’کتاب اللہ‘ سے کروں گا۔ سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس کیا جائے اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیاجائے۔‘‘ (صحیح بخاری ’کتاب المحاربین‘ ) مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ احادیث کو بھی ’کتاب اللہ‘ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ جو سزا یہاں بیان کی گئی ہے، وہ حدیث ہی میں ہے، قرآن میں کہیں نہیں ۔ صرف قرآن قرآن کا دعوی کرنے والوں کو اتنی سیدھی سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ قرآن اور حدیث دونوں ہی وحی کے الفاظ ہیں ، دونوں شانِ نبوت سے ادا ہوتے ہیں ۔ ایک ہی نبی اور ملتے جلتے الفاظ۔ ان میں سے بعض کو ہم قرآن قرار دیتے ہیں او ربعض کو حدیث نبوی کیونکہ ہمیں ہمارے نبی نے بتایا کہ فلاں الفاظ بطور قرآن ہیں اور فلاں بطور حدیث۔ ا س سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر یقین نہیں ہے تو پھر بتایئے، قرآن بھی کس کے کہنے سے ’قرآن‘ بنتا ہے؟فرمان نبوی نے ہی بتلایا کہ یہ قرآن ہے۔ ہم سے نہ اللہ نے یہ فرمایا، نہ جبریل علیہ السلام امین نے کہا کہ یہ قرآن ہے۔ کس قدر احسان ناشناس اور محسن کش ہیں یہ لوگ جو آج قرآن کی آڑ لے کر حدیث کے انکار پر تلے ہوئے ہیں جبکہ احادیث ہی نے انہیں قرآن سے روشناس کیا۔ اگر حدیث سے انکار ہے تو قرآن کا ثبوت کیسے ممکن ہے؟ اگر حدیث کا اعتبار نہیں تو قرآن کا کیا اعتبار؟ (معاذ اللہ) حدیث ہی نے ہم کو بتلایا کہ یہ قرآن ہے۔ منکرین حدیث کس منہ سے قرآن کو ’کتاب اللہ‘ کہتے ہیں ۔ قرآن تو صرف انہی بانصیب کے لئے ’کتاب اللہ‘ ہے جن کا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہے اور جن کے لئے حدیث حجت ہے!!