کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 366
﴿ وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ﴾ (البقرۃ: ۱۲۹) ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم انکو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے تھے‘‘ حکمت کیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب اللہ کے ساتھ جو حکمت نازل فرمائی ہے اس سے کیا مراد ہے؟ حضرت قتادہ کہتے ہیں والحکمة أی السنة ’’حکمت یعنی سنت ِنبوی ہے۔‘‘ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : والسنة، الحکمة التی فی روعه عن اللَّه عزوجل (الرسالہ) ’’اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وہ حکمت ہے جو آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈالی گئی ہے۔‘‘ قرآن اور حدیث میں فرق یہ بات تو واضح ہوگئی کہ قرآن کی طرح سنت و حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی منزل من اللہ اوروحی الٰہی ہے۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ قرآن وحی ِمتلو ہے اور حدیث وحی غیر متلو۔قرآنِ کریم کا مضمون بھی ربانی ہے اور الفاظ بھی ربانی ہیں ۔ جبریل امین الفاظِ قرآنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل کرتے ہیں ۔ جبکہ حدیث ِنبوی کا مضمون تو ربانی ہے مگر الفاظ ربانی نہیں ، اللہ تعالیٰ بلا واسطہ جبریل علیہ السلام کے اس مضمون کو خود قلب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم پرالقا فرماتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مضمون کومناسب الفاظ کا جامہ پہنا دیتے ہیں ۔ مقامِ تعجب ہے کہ منکرین حدیث حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو مانتے ہیں مگر آپ کے ارشادات کو وحی الٰہی نہیں مانتے بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ کی ذاتی بات مانتے ہیں ۔ یہ لوگ یا تو دل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں مانتے یا پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معنی نہیں جانتے۔ رسول کے معنی ہیں : پیغام پہنچانے والا۔ پیغام پہنچانے والا دوسرے کا پیغام پہنچاتا ہے، اپنی نہیں سناتا۔ اگر وہ دوسرے کا پیغام پہنچانے کی بجائے اپنی بات شروع کردیتا ہے تو وہ امین نہیں ، خائن ہے ۔(معاذ اللہ) اور رسول کی پہلی اور آخری صفت یہ ہے کہ وہ ’امین‘ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسند ِرسالت پر فائز ہونے سے قبل ہی ’امین‘ مشہور تھے۔ ’رسول‘ اس کو کہتے ہیں ہیں جو اپنی نہ کہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا پیغام حرف بحرف پہنچا دے۔ جو لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی بات سمجھ کر ردّ کردیتے ہیں ، وہ صرف منکرین حدیث ہی نہیں درحقیقت وہ منکر ِرسالت ہیں ۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے سچے دل سے قائل ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث آیاتِ قرآنی کی طرح سرآنکھوں پر رکھتے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اپنی تو وہ کہتا ہے جس کا تعارف ذاتی ہوتا ہے اور جس کا تعارف ذاتی ہوتا ہے ،وہ اپنے باپ کے نام سے متعارف ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا،سب اپنے باپ کے نام سے پہنچانے اور پکارے جاتے ہیں ۔ جیسے عثمان بن عفان، عمر بن خطاب ، ابوبکر بن ابی قحافہ وغیرہ رضی اللہ عنہم سب اپنے اپنے باپ کے نام سے پکارے جاتے ہیں ۔ مگر ایک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو اپنے