کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 360
اعتبار سے بھی مفلس تھے۔ البتہ ان کو گمراہی پھیلانے کے لئے ایک اچھا عنوان ضرور مل گیا یعنی کہ ’’قرآن ایک کامل کتاب ہے‘‘؛ جو ذہین ملحدین اور اس جیسے تیسرے درجے کے لوگوں کے لئے کافی جاذب ہوا۔ ‘‘ (برقِ اسلام، صفحہ ۷)
چکڑالوی کا یہ سراپا پڑھنے کے بعد احادیث کی صحت پریقین اور زیادہ پختہ ہوگیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ پیشین گوئی ان پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ چنانچہ حضرات ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے بعد ایک ایسا آدمی ہوگا جو اپنی مسند (اریکہ) پر ٹیک لگا کر بیٹھے گا ۔ جب اس کے پاس اوامر و نواہی پر مشتمل میری احادیث پہنچیں گی تو وہ کہے گا :میں نہیں جانتا ،ہم تو صرف وہی بات مانیں گے جو قرآن میں ہوگی اور غیر قرآنی تصورات ہم نہیں مانتے۔‘‘
مولانا اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’متکئا‘‘ کا مصداق زیادہ تر امیر لوگ ہوتے ہیں اور حدیث چونکہ قرآن کے احکام کی تعیین کرتی ہے اور مقید اور پابند بناتی ہے اس لئے وہ دین سے آزاد ہونے کے لئے سب سے پہلے حدیث کا انکار کریں گے۔ ہمارے ملک میں انکارِ حدیث کی بدعت مولوی عبداللہ چکڑالوی نے پیدا کی۔ وہ اپاہج تھا، اس کی ٹانگیں خراب تھیں ، چل پھر نہیں سکتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی میں اس کی جو شکل او رحلیہ بتا یا، واقعی وہ ظالم اسی حلیہ کا تھا۔ اس کے بعد جو لوگ انکارِ حدیث کی تحریک کو چلا رہے ہیں ، وہ سب عموماً جاہل اور متکبر ہیں ۔کسی نے بھی حدیث کو ’فن‘ کے طور پر حاصل نہیں کیا‘‘
(مشکوٰۃ شریف مترجم از مولانا محمد اسمٰعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ : ج۱/ صفحہ ۲۲۳،۲۲۴)
پروفیسر اسلم جیراجپوری اور اس کے تربیت یافتہ مسٹر غلام احمد پرویز
عبداللہ چکڑالوی کے بعد جن لوگوں نے اس فکر کو پھیلایا اور نئے نئے شبہات پیدا کرکے سادہ لوح مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی، ان میں سے احمد دین امرتسری اور پروفیسر اسلم جیراجپوری وغیرہ ہیں اور اسی پروفیسر اسلم کے فیض یافتہ مسٹر غلام احمد پرویز ہیں جس کا اظہار انہوں نے خود کیا ہے، لکھتے ہیں :
’’آج اسی سرزمین میں علامہ اسلم جے راج پوری مدظلہ العالی کی قرآنی فکر برگ وبار لارہی ہے۔ جنہوں نے اپنی عمر عزیز اسی جہاد کے لئے وقف کر رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں تادیر سلامت رکھے تاکہ ہم ان کے تدبر فی القرآن کے نتائج سے مستفیض ہوسکیں ۔ میرے کاشانۂ فکر میں ، سلیم! اگر کوئی چمکتی ہوئی کرن دکھائی دیتی ہے تو وہ انہی کے جلائے ہوئے دیپوں کا فروغ ہے۔ ‘‘ (دیکھئے: سلیم کے نام سترھواں خط)
کویت میں بزم طلوعِ اسلام کی سرگرمیاں
کویت میں پرویزی فکر کے حاملین حضرات ’بزمِ طلوع اسلام‘ کے نام سے پرویزیت کی اشاعت