کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 358
بیان اور تفصیل بھی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے ،اس لئے انہوں نے اس نظریہ کی بھرپور تردید کی۔
چنانچہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ اپنے شاگردوں کو حدیث پڑھا رہے تھے تو ایک شخص نے کہا: ’’لا تحدثونا إلا بالقرآن‘‘ کہ ہمیں صرف قرآن ہی کے متعلق بتائیے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسے قریب بلایا اور اس سے کہا
’’ اگر آپ اور آپ کے ہم خیال لوگوں کو صرف قرآن پر چھوڑ دیا جائے تو کیا تم قرآن کریم سے ظہر کے چار فرض اور مغرب کے تین فرض ، جن میں سے دو میں قراء ت جہراً ہوگی، کو ثابت کر سکتے ہو ؟ کیا تم قرآنِ کریم سے طواف بیت اللہ اور صفا و مروہ کی سعی کے سات چکروں کا ثبوت پیش کرسکتے ہو؟‘‘پھر تمام حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا : ’’اے لوگو! ہم سے علم سیکھو۔ اللہ کی قسم !اگر اپنی مرضی کرو گے تو گمراہ ہوجاؤ گے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس شخص نے صحابی رسول حضرت عمران رضی اللہ عنہ کی بات سن کر اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور بطورِ شکریہ کہنے لگا: أحییتنی أحیاک اللَّه ’’اللہ آپ کی عمر دراز کرے آپ نے میرے دلِ مردہ میں تازگی پیدا کردی اور میری آنکھیں کھول دی ہیں ‘‘ (الکفایہ فی علم الروایہ، المستدرک للحاکم)
خوارج چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف ہوگئے تھے، اس لئے انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں واردہ تمام احادیث کا انکار کردیا ۔پھر ان کے مقابلے میں ایک دوسرا گروہ پیدا ہوا ،جس نے اہل بیت رضی اللہ عنہم کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل میں وارد شدہ تمام احادیث کا انکار کردیا۔
معتزلہ اورانکارِ حدیث
اس فرقہ کا بانی واصل بن عطا(م۱۳۱ھ)ہے۔اس نے اہل سنت کے مد ِمقابل حدیث کی بجائے عقل کو بنیاد بنایا، اس وجہ سے یہ لوگ معتزلہ کے نام سے معروف ہو ئے۔ چونکہ یہ لوگ صفاتِ الٰہی کے منکرتھے ، اس لئے انہوں نے ان احادیث کو ماننے سے انکار کردیا جن میں اللہ تعالیٰ کی صفاتِ باکمال کا ذکر تھا۔
مسٹر پرویز اور معتزلہ کا باہم اشتراک: نظریۂ انکارِ حدیث درحقیقت وہی فتنۂ اعتزال ہے جو ایک نئے روپ میں ظاہر ہوا ہے، چنانچہ مسٹر پرویز معتزلہ کے ساتھ اپنی نسبت ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’وحی متلو اور غیر متلو ‘ (مثلہ معہ) کا عقیدہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے وضع کیا تھا۔ (لیکن)جن لوگوں کے ذہن میں دین کا صحیح تصور اور دل میں قرآن مجید کے ’لا شریک لہ‘ ہونے کی عظمت تھی انہوں نے اس نئے عقیدے کی مخالفت کی اور کہا کہ دین میں سند اور حجت صرف قرآن ہے۔ جیسا کہ قدامت پرست طبقہ کا قاعدہ ہے، انہوں نے ان لوگوں پر معتزلہ کا لیبل لگایا اور پھر ان کے خلاف اس قدر پروپیگنڈہ کیا کہ آج جو شخص عقل و فکر کی بات کرے اور اس کے دلائل کا جواب ان سے نہ بن پڑے، اس کے متعلق اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ وہ معتزلہ ہے۔‘‘ (شاہکارِ رسالت: صفحہ ۵۰۱)