کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 357
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کئی مدعی نبوت اٹھے ۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان تمام کو کیفر کردار تک پہنچایا اور باقی فتنوں کی طرح یہ فتنہ بھی دَب گیا ۔پھر شہادت ِفاروق اعظم رضی اللہ عنہ تک دوبارہ کسی فتنے کو سر اٹھانے کی جرأت نہ ہوسکی، لیکن ان کی شہادت کے بعد پھر فتنوں اور سازشوں نے سر نکالنا شروع کردیا۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیشین گوئی فرما چکے تھے اور آپ کی ہر پیشین گوئی نصف النہار کے آفتاب کی طرح واضح اور برحق ثابت ہوئی جو کہ فرمانِ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور حجیت حدیث کی بین دلیل ہے۔ خوارج اور انکارِحدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعدسر اٹھانے والے فتنوں میں سے ایک فتنہ خوارج کا تھا۔ انہوں نے اپنی مرضی سے قرآن کریم کی تفسیر کی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اجتماعی عقیدے سے انحراف کیا اور واقعہ تحکیم میں ﴿ إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلّهِ﴾ کی خود ساختہ تشریح کر کے حضرت علی، حضرت معاویہ اور حَکَمَین پر کفر اور شرک کا فتویٰ لگایا اور اسی بنا پر حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کردی۔ تو اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: ’’کلمة حق أريد بها الباطل‘‘کہ ’’یہ فتنہ پرور لوگ اللہ تعالیٰ کے مقدس فرمان کی آڑ میں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘ چنانچہ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’فتح القدیر‘ کے مقدمہ میں ایک روایت ذکرکی ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو خوارج سے مناظرہ کے لئے بھیجا تو ان سے فرمایا : ’’خوارج کے پاس جاؤ لیکن یاد رکھنا کہ ان سے قرآن کی بنیاد پر مناظرہ نہ کرنا کیونکہ قرآن کئی پہلوؤں کا حامل ہے ، بلکہ سنت کی بنیاد پر ان سے گفتگو کرنا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا : میں کتاب اللہ کا ان سے زیادہ عالم ہوں ۔فرمایا :تمہاری بات بجا لیکن قرآن کئی پہلوؤں کا حامل اورکئی معانی کا متحمل ہے۔‘‘ (مقدمہ فتح القدیر) پھر ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کے سامنے آیت ﴿ إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلّهِ﴾ کی وہ تفسیر بیان کی جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی تھی اور ان پر واضح کیا کہ ان کا نظریہ غلط ہے تو یہ لوگ لاجواب ہوگئے۔ ( سیراعلام النبلائ) امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ خوارج کے بارے میں ’الفصل فی الملل والنحل‘ میں فرماتے ہیں : کانوا أعراباً قرء وا القرآن ولم يتفقهوا فی السنن (۴/۱۶۸) ’’یہ دیہاتی لوگ تھے جنہوں نے قرآن تو پڑھا مگر سنت میں تفقہ حاصل نہ کیا۔‘‘ صحابہ کی طرف سے اس نظریہ کا ردّ : یہ وہ نقطہ آغاز تھا جس میں حدیث وسنت سے استغنا کا ذہن دیا گیا۔ چونکہ صحابہ کا عقیدہ تھا کہ جس طرح قرآن مجید اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے، اسی طرح اس کا