کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 355
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، اور ان کے شاگرد تابعین عظام بڑے اہتمام کے ساتھ احادیث ِمبارکہ کو یاد کرتے تھے اور پھر ان کے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان فاصلہ ہی کتنا تھا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری صحابہ ۱۱۰ھ میں فوت ہوئے اور امام بخاری ۱۹۴ھ میں پیدا ہوئے۔ لیکن پرویز صاحب اس کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں ، گویا درمیان میں صدیوں کا فاصلہ تھا اور پھر احادیث کو یاد کرنے کا اہتمام بھی نہیں تھا تاکہ لوگوں کو تاثر دیا جاسکے کہ محدثین نے اپنی طرف سے باتیں گھڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی ہیں ۔ اب رہا یہ دعویٰ کہ احادیث کا سابقہ تحریری ریکارڈ موجود نہیں تھا تو یہ سراسر باطل، لغو اور خلافِ واقعہ ہے۔کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود احادیث لکھوایا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس احادیث لکھا کرتا تھا تو لوگوں نے مجھ سے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی غصے میں ہوتے ہیں اور کبھی خوشی میں توتم ہر بات لکھ لیتے ہو۔ چنانچہ میں نے لکھنا چھوڑ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أکتب فو الذی نفسي بيده ما يخرج منه إلا الحق (مسند احمد: ۲/۱۶۲) ’’احادیث لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس منہ سے حق کے سوا دوسری بات نہیں نکلتی۔‘‘ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم احادیث لکھوایا کرتے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس تحریری شکل میں احادیث موجود تھیں ۔مثلاً (۱)صحیفہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا (۲) نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جس میں زکوٰۃ کے احکام درج تھے، (۳) نوشتہ ہائے سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ ، (۴) احادیث التفسیر لابی بن کعب رضی اللہ عنہ ، (۵)نوشتہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، (۶) صحیفہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، (۷) نوشتہ ابی رافع رضی اللہ عنہ ، (۸) صحیفہ صادقہ از حضرت علی رضی اللہ عنہ ، (۹)کتاب الفرائض لزید بن ثابت رضی اللہ عنہ ، (۱۰) کتاب مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ، (۱۱) کتاب عمرو بن حزم انصاری رضی اللہ عنہ ، (۱۲) صحیفہ سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ ، (۱۳)صحیفہ صادقہ از حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما ، (۱۴) صحیفہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، (۱۵) صحیفہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ ، (۱۶) صحیفہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ، (۱۷) صحیفہ شمعون بن یزید رضی اللہ عنہ ، (۱۸) نوشتہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ ، (۱۹) صحیفہ ہمام بن منبہ رضی اللہ عنہ جو انہوں نے اپنے استاد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے لکھا تھا۔ نیز صحیح بخاری سے پہلے ان صحف کے علاوہ یعنی تابعین اور تبع تابعین کے دور میں بھی کئی کتابیں لکھی جاچکی تھیں ۔ صحیفہ معمر، موطا ٔامام مالک، موطأ امام محمد، کتاب الآثار ، کتاب الخراج، مسند الشافعی، کتاب الام، مسند احمد، مسند اسحاق بن راہویہ، مسند الحمیدی، مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبدالرزاق وغیرہ۔ اسی طرح عبداللہ بن مبارک، حضرت وکیع اور علی بن مدینی رحمہم اللہ کی کتب لکھی جاچکی تھیں ۔