کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 353
اسی طرح اگر کسی نے موضوع روایات بنا لی تھیں تو ان سے حدیث کی صداقت پر کوئی حرف نہیں آتا کیونکہ محدثین کرام نے لوگوں کو ان وضعی اور من گھڑت روایات سے متنبہ کردیا ہے۔ اسی لئے جب حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے اس خطرے کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا تھا:
’’ تعيش لها الجهابذة ‘‘ (الباعث الحثیث، تدریب الراوی)
کہ’’ ماہرین حدیث موجود ہیں جو لوگوں کو موضوع روایات سے آگاہ کریں گے۔‘‘
کیا احادیث، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کافی عرصہ بعد لکھی گئیں ؟
مسٹر پرویز لکھتے ہیں :
’’یہ کوششیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بہت عرصہ بعد شروع ہوئیں ۔ مثلاً ان مجموعوں میں سب سے زیادہ مستند مجموعہ امام بخاری کا سمجھا جاتا ہے، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دو اڑھائی سو سال بعد مرتب ہوا تھا۔ یہ مجموعے کسی سابقہ تحریر ی ریکارڈ سے مرتب نہیں ہوئے تھے۔ زبانی روایات جمع کی گئی تھیں ۔‘‘ (اسبابِ زوالِ اُمت، ص۶۳)
اس بیان سے چند چیزیں سامنے آتی ہیں :
٭ احادیث دیر سے مرتب ہوئیں ۔
٭ سابقہ ریکارڈ نہیں تھا زبانی جمع کی گئیں ۔
٭ سب سے پہلے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے احادیث جمع کیں ۔
قارئین! پرویز صاحب نے سادہ لوح مسلمانوں کو بڑے پرکشش انداز میں فریب میں مبتلا کرنے کی کوشش کی ہے۔ذرا غور فرمائیے کہ کیا دیر سے کسی چیز کو مرتب کرکے پیش کرنا عیب ہے؟ اگر عیب ہے تو پھر فرمائیے کہ قرآنِ کریم میں کتنے ہزار سال بعد گذشتہ اُمم کے واقعات ہمارے سامنے بیان کئے گئے؟
اور دوسری بات کہ کیا کسی چیز کا تحریری ریکارڈ نہ ہونا اور صرف حفظ اور یاد ہونا اس چیز کی اہمیت کو ختم کر دیتا ہے؟
ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنے قائدین کی ہر ہر اَدا کو حفظ کر لیتے ہیں توکیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہ جان فدا کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہیں اپنے تو اپنے ، گھوڑوں تک کے نسب نامے اور کارنامے بھی ازبر تھے اور وہ عرب جنہیں اپنے حافظے پر ناز تھا،کیا وہ اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو یاد نہ رکھ سکے ہوں گے؟ اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ترغیب بھی تھی کہ’’نضراللّٰه امرأ سمع مقالتی فوعاها‘‘(ترمذی ۲۶۵۸، مسند احمد ۴/۸۰) اور پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بالاہتمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو احادیث ِمبارکہ یاد کرواتے تھے اور صحابہ کرام اس اعتقاد کے ساتھ احادیث یاد کرتے کہ وہ قرآنِ کریم کی تفسیر ہیں اوران کے بغیر قرآن پر عمل کرنا ناممکن