کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 351
﴿ قُلْ لاَ أَجِدُ فِيْمَا أُوْحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلی طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗ﴾ (الانعام:۱۴۵) ’’میں مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کئے ہوئے جانور کے علاوہ قرآن میں کھانے والوں کے لئے کوئی چیز حرام نہیں پاتا‘‘ 3. لہٰذا اگر قرآن میں ہر چیز کی تفصیل ہے اور احادیث پر آپ کو یقین نہیں ہے تو قرآن سے ان جانوروں کو حرام ثابت کریں یا پھر ان کے حلال ہونے کا فتویٰ دیں ؟ ورنہ اس حدیث کی حجیت کو تسلیم کرلیں : کل ذی ناب من السباع وکل ذی مخلب من الطير(مسند احمد: ۱/۳۳۲، ۴،۱۹۳) ’’ہر کچلی والا جانور اور ہر پنجے سے شکار کرنے والا پرندہ حرام ہے۔‘‘ 4. پرویز صاحب کا دعویٰ ہے کہ : ’’جو احادیث قرآن کے خلاف نہیں ، میں انہیں صحیح سمجھتا ہوں ۔‘‘ (شاہکارِ رسالت، ص۴۹۷) اس بنا پرپرویزی فکر کے حاملینسے ہمارا سوال یہ ہے کہ جن احادیث ِمبارکہ میں نماز اور زکوٰۃ کی تفاصیل موجود ہیں ، وہ قرآنِ کریم کی کس آیت ِمبارکہ کے خلاف ہیں ؟ اگر وہ احادیث قرآن کے خلاف نہیں تو پرویز نے ﴿ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلاَةَ﴾ (البقرۃ:۳)کا درج ذیل مفہوم کہاں سے لیا ہے؟ ’’اس مقصد کے لئے یہ لوگ اس نظام کو قائم کرتے ہیں جس میں تمام افراد قوانین خداوندی کا اتباع کرتے جائیں ۔‘‘ (مفہوم القرآن: ۱/۳) یعنی ’اقامت ِصلوٰۃ‘ سے مراد ایک نظام قائم کرنا ہے، رکوع و سجود اور قیام و قعود پر مشتمل نمازمراد نہیں ہے ۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’قرآنِ کریم کی خاص اصطلاح ’اقامت ِصلوٰۃ‘ ہے جس کے عام معنی نماز قائم کرنا یا نماز پڑھنا کئے جاتے ہیں ۔ لفظ صلوٰۃ کا مادہ ’ص ل و‘ ہے جس کے بنیادی معنی کسی کے پیچھے پیچھے چلنے کے ہیں اس لئے صلوٰۃ میں قوانین خداوندی کے اتباع کامفہوم شامل ہوگا۔ بنابریں اقامت ِصلوٰۃ سے مفہوم ہوگا ایسے نظام یا معاشرے کا قیام جس میں قوانین ِخداوندی کا اتباع کیا جائے۔ ‘‘ (مفہوم القرآن: جلد اول، ص۷) جب ایک چیز کے مفہوم کا تعین خود صاحب ِقرآن نے کردیا ہے تو پھر اپنی طرف سے اس مفہوم کے خلاف ایک نیا نظریہ پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ اسی طرح ’زکوٰۃ‘کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’زکوٰۃ کا مروّجہ مفہوم یہ ہے کہ اپنی دولت میں سے ایک خاص شرح کے مطابق روپیہ نکال کر خیرات کے کاموں میں صرف کیا جائے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس میں بھی زکوٰۃ کے قرآنی مفہوم کی ایک جھلک پائی جاتی ہے ،لیکن قرآنِ کریم نے اسے ان خاص معانی میں استعمال نہیں کیا۔‘‘ (مفہوم القرآن، جلد اوّل، ص۷) ان تصریحات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پرویز کا یہ دعویٰ کہ ’’جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد یا کسی