کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 347
کئی لحاظ سے ناقابل قبول ہے: 1.اس سے بعثت ِانبیاء و رسل علیہم السلام کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے…2.ایسا کرنے سے اُمت بے شمار گروہوں میں بٹ جائے گی جو کہ روحِ اسلام کے منافی ہے۔ جیسا کہ منکرین حدیث نماز کے سلسلے میں باہم مخالف اور بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں ، حالانکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا﴾ ’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔3.اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق اس کے احکام پر عمل نہیں ہوسکے گا اور گمراہی پھیلے گی…4.﴿ وَاَنَّ هذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِيْمًا فَاتَّبِعُوْه﴾ کا وجود ہی ختم ہوجائے گا ،ہر ایک اپنی راہ کو مستقیم قرار دے گا اور اپنی عقل کو عقل کل سمجھ کر نیا طرزِ جنوں ایجاد کرلے گا۔ دوسری صورت: یہ ہے کہ قرآن کی توضیح و تشریح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دور میں اپنی ذاتی مرضی سے کریں اور آپ کے بعد جو بھی مسلمانوں کا امام یا سربراہ یا ’مرکز ِملت‘ہو وہ اپنی مرضی سے کرے، لیکن یہ نظریہ بھی کئی لحاظ سے گمراہ کن ہے : (۱) خود قرآنِ کریم اس نظریے کو غلط قرار دیتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی من مانی تعبیرکا اختیار ہو۔ چنانچہ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے: ﴿ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَیٰ إِنْ هُوْ إِلاَّ وَحْیٌ يُّوْحٰی﴾ (النجم:۳، ۴) ’’اور وہ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی مرضی سے کوئی بات نہیں کہتے۔ ان کی بات تو صرف وہی ہوتی ہے جو اُتاری جاتی ہے۔‘‘ اسی طرح جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وجہ سے شہد نہ کھانے کی قسم کھا لی تو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تنبیہ فرمائی: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللّٰهَ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاهَ أَزْوَاجِکَ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ﴾ (التحریم:۱) ’’اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے حلال کردیا ہے، آپ اسے کیوں حرام کرتے ہیں ؟… کیا (اس لئے کہ) آپ اپنی ازواجِ مطہرات کی رضا چاہتے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (۲) اس نظریہ سے اطاعت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تصور ہی ختم ہوجاتا ہے اور پرویز کے اس نظریہ کے مطابق توواجب الاطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس نہیں بلکہ ’مرکز ِملت‘ یعنی وقت کی حکومت واجب الاطاعت قرار پاتی ہے۔بلکہ وہی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کا درجہ رکھتی ہے۔چنانچہ پرویزصاحب لکھتے ہیں : ’’یہ تصور قرآن کی بنیادی تعلیم کے منافی ہے کہ اطاعت اللہ کے سوا کسی اور کی بھی ہوسکتی ہے حتیٰ کہ خود رسول کے متعلق واضح اور غیر مبہم الفاظ میں بتلا دیا گیا کہ اسے بھی قطعاً یہ حق حاصل نہیں کہ