کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 346
امام راغب فرماتے ہیں : ’’هی الحالة التی يکون الانسان عليها فی اتباع غيره‘‘
’’کسی کو اُسوہ بنانے سے مراد انسان کی وہ حالت ہے جس میں وہ اپنے مقتدیٰ کی پیروی کے وقت ہوتا ہے۔‘‘ (المفردات فی غریب القرآن، ص۶۸)
لہٰذا لغت ِعرب میں ’اُسوہ ‘ سے مراد کسی کے اقوال و افعال اور عملی زندگی ہے۔
طلوعِ اسلام کے سربراہ مسٹر پرویز ’اُسوۂ حسنہ‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد یاکسی عمل کی صداقت سے انکار کرتا ہے، میرے نزدیک وہ مسلمان ہی نہیں کہلا سکتا۔ اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و اعمال سے وہ ماڈل ترتیب پاتا ہے جسے خدا نے ’اُسوۂ حسنہ‘ قرار دیا ہے۔ اُسوۂ حسنہ سے انکار نہ صرف انکارِ رسالت ہے بلکہ ارشادِ خداوندی سے انکار ہے۔ اس انکار کے بعد کوئی شخص کیسے مسلمان رہ سکتا ہے۔‘‘ (مضمون’سوچا کرو‘ :ص۱۱)
قارئین ذرا غور فرمائیے،’اُسوۂ حسنہ‘کے مفہوم کی تعیین میں چنداں فرق نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پرویز صاحب نے یہ بیان سادہ لوح مسلمانوں کو فریب میں مبتلا کرنے کے لئے دیا ہے؟ جیسا کہ طلوعِ اسلام کی روش ہے کہ ماہنامہ ’طلوع اسلام‘ کے ٹائٹل پر ’بخاری و مسلم‘کی حدیث درج ہوتی ہے اور مندرجات سب کے سب احادیث کے ردّ میں … یا پھر واقعتا ان کا یہی عقیدہ ہے!! ؟
اگر واقعتا ان کا یہی ایمان ہے تو پھر ہم سوال کرنے کی جسارت کریں گے کہ چلو آپ کے بقول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات تو ہوئے قرآنِ کریم کی شکل میں ہیں ،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کون سے ہیں ؟ ان کا پتہ کیسے چلے گا؟ کیونکہ آپ کے بقول احادیث تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو صدیاں بعد میں لکھی گئیں ہیں ؟ احادیث کے بارے میں ایسا منفی رویہ رکھنے کے بعد جناب پرویز کے اِس فرمان کا کیا بنے گا… !!
’’جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد یا کسی عمل کی صداقت سے انکار کرتا ہے میرے نزدیک وہ مسلمان ہی نہیں کہلا سکتا۔‘‘
قرآن و حدیث میں باہمی ربط
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حدیث ِرسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم قرآنِ پاک کا بیان اور تفسیر ہے۔ دونوں آپس میں لازم و ملزوم اور من جانب اللہ ہیں اور ان میں سے کسی ایک کا انکاردوسرے کے انکار کے مترادف ہے۔ اس لئے کہ قرآنِ کریم کو نازل کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اس کے احکام پر عمل کیا جائے اور جب تک اس دستورِ کامل کے جامع الفاظ کی تشریح نہیں کی جائے گی تب تک اللہ کی منشا کے مطابق اس پر عمل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ قرآن کی تشریح و توضیح کی چند ممکنہ صورتیں ہوسکتی ہیں :
پہلی صورت: ہرشخص کو یہ حق دے دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے اس کی تشریح کرے، لیکن یہ نظریہ