کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 344
ہے اور اخبارِ ضعیفہ میں سے بھی جس کسی کو فقہ کے کسی سکول نے قبول کیا ہے، اس بنا پر کیا ہے کہ اس کے نزدیک وہ قرآن سے ، سنن متعارفہ کے جانے پہچانے نظام سے، اور شریعت کے جامع اُصولوں سے مناسبت رکھتی ہے۔ محترم مکتوب نگار کی چند سطروں پر یہ تفصیلی تبصرہ میں نے صرف اس لئے کیا ہے کہ یہ سطریں کسی عام آدمی کے قلم سے نہیں نکلی ہیں بلکہ ایک ایسے بزرگ کے قلم سے نکلی ہیں جنہیں ہمارے سپریم کورٹ کے جج کی بلند پوزیشن حاصل ہے۔ سنت کی شرعی و قانونی حیثیت کے متعلق اس پوزیشن کے بزرگوں کی رائے میں ذرّہ برابر بھی کوئی کمزور پہلو ہو تو وہ بڑے دور رَس نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ قریب کے زمانے میں سنت کے متعلق عدلیہ کی بعض دوسری بلند پایہ شخصیتوں کے ایسے ریمارکس بھی سامنے آئے ہیں جو صحیح نقطہ نظر سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ا س لئے میں چاہتا ہوں کہ جو باتیں میں نے اس تبصرے میں عرض کی ہیں ، انہیں فاضل مکتوب نگار ہی نہیں ، ہمارے دوسرے حکامِ عدالت بھی اسی بے لاگ نگاہ سے ملاحظہ فرمائیں جس کی ہم اپنی عدلیہ سے توقع رکھتے ہیں ۔ (ترجمان القرآن‘ بابت دسمبر ۱۹۵۸ء)