کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 343
متفرق سنتوں کو فراہم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
موضوعات گھڑنے والوں نے ان کے اندر آمیزش کرنے کی جتنی بھی کوششیں کیں وہ قریب قریب سب ناکام ہوگئیں ، کیونکہ جن سنتوں سے کوئی حق ثابت یا ساقط ہوتا تھا، جن کی بنا پر کوئی چیز حرام یا حلال ہوتی تھی، جن سے کوئی شخص سزا پاسکتا تھا یا کوئی ملزم بری ہوسکتا تھا، غرض یہ کہ جن سنتوں پر احکام اور قوانین کا مدار تھا، ان کے بارے میں حکومتیں اور عدالتیں اور اِفتاء کی مسندیں اتنی بے پروا نہیں ہوسکتی تھیں کہ یوں ہی اٹھ کر کوئی شخص ’قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیتا اور ایک حاکم یا جج یا مفتی اسے مان کر کوئی حکم صادر کرڈالتا۔ اسی لئے جو سنتیں احکام سے متعلق تھیں ، ان کے بارے میں پوری چھان بین کی گئی، سخت تنقید کی چھلنیوں سے ان کو چھانا گیا، روایت کے اصولوں پر بھی انہیں پرکھا گیا اور درایت کے اصولوں پر بھی، اور وہ سارا مواد جمع کردیاگیا جس کی بنا پر کوئی روایت مانی گئی ہے یا ردّ کردی گئی ہے تاکہ بعد میں بھی ہر شخص اس کے ردّ و قبول کے متعلق تحقیقی رائے قائم کرسکے۔
ان سنتوں کا ایک معتدبہ حصہ فقہا اور محدثین کے درمیان متفق علیہ ہے اور ایک حصے میں اختلافات ہیں ۔ بعض لوگوں نے ایک چیز کو سنت مانا ہے اور بعض نے نہیں مانا۔ مگر اس طرح کے تمام اختلافات میں صدیوں اہل علم کے درمیان بحثیں جاری رہی ہیں اور نہایت تفصیل کے ساتھ ہر نقطہ نظر کا استدلال، اور وہ بنیادی مواد جس پر یہ استدلال مبنی ہے، فقہ اور حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ آج کسی صاحب ِعلم کے لئے بھی مشکل نہیں ہے کہ کسی چیز کے سنت ہونے یا نہ ہونے کے متعلق تحقیق سے خود کوئی رائے قائم کرسکے۔ اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ سنت کے نام سے متوحش ہونے کی کسی کے لئے بھی کوئی معقول و جہ ہوسکتی ہے۔ البتہ ان لوگوں کا معاملہ مختلف ہے جو اس شعبۂ علم سے واقف نہیں ہیں اور جنہیں بس دور ہی سے حدیثوں میں اختلافات کا ذکر سن کر گھبراہٹ لاحق ہوگئی ہے!!
احکامی احادیث کی امتیازی حیثیت
اس سلسلے میں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ احادیث میں جو مواد احکام سے متعلق نہیں ہے بلکہ جس کی نوعیت محض تاریخی ہے، یا جو فتن، ملاحم، رقاق، مناقب، فضائل اور اسی طرح کے دوسرے اُمور سے تعلق رکھتا ہے، اس کی چھان بین میں وہ عرق ریزی نہیں کی گئی ہے جو احکامی سنتوں کے باب میں ہوئی ہے۔ اس لئے موضوعات نے اگر راہ پائی بھی ہے تو زیادہ تر انہی ابواب کی روایات میں پائی ہے۔ احکامی سنتیں بے اصل اور جھوٹی روایتوں سے تقریباً بالکل ہی پاک کردی گئی ہیں ۔ ان سے تعلق رکھنے والی روایتوں میں ضعیف خبریں تو ضرور موجود ہیں مگر موضوعات کی نشاندہی مشکل ہی سے کی جاسکتی