کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 342
نے سنت ِاسلام کا جز بنا لیا۔ یہ وہ معلوم و متعارف سنتیں تھیں جن پرمسجد سے لے کر خاندان، منڈی، عدالت، ایوانِ حکومت اور بین الاقوامی سیاست تک مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے تمام ادارات نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں عملدرآمد شروع کردیا تھا اور بعد میں خلفائے راشدین کے عہد سے لے کر دورِ حاضر تک ہمارے اجتماعی ادارات کاڈھانچہ انہی پر قائم ہے۔
پچھلی صدی تک توان ادارات کے تسلسل میں ایک دن کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد اگر کوئی انقطاع رونما ہوا ہے تو صرف حکومت و عدالت اور پبلک لاء کے ادارات عملاً درہم برہم ہوجانے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اگر آپ ’متوارث‘ سنتوں کی محفوظیت کے قائل ہیں تو عبادات اور معاملات دونوں سے تعلق رکھنے والی یہ سب معلوم و متعارف سنتیں متوارث ہی ہیں ۔ ان کے معاملے میں ایک طرف حدیث کی مستند روایات اور دوسری طرف امت کا متواتر عمل، دونوں ایک دوسروں سے مطابقت رکھتے ہیں ۔ ان میں مسلمانوں کی بے راہ روی سے جو الحاقی چیز بھی کبھی داخل ہوئی ہے، علماءِ اُمت نے اپنے اپنے دور میں بروقت ’بدعت‘کی حیثیت سے اس کی الگ نشاندہی کردی ہے اور قریب قریب ہر ایسی بدعت کی تاریخ موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کس زمانے سے اس کا رواج شرو ع ہوا، مسلمانوں کے لئے ان بدعات کو سنن ِمتعارفہ سے ممیز کرنا کبھی مشکل نہیں رہا ہے۔
اخبارِ احاد کی حیثیت
ان معلوم و متعارف سنتوں کے علاوہ ایک قسم سنتوں کی وہ تھی جنہیں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں شہرت اوررواج عام حاصل نہ ہوا تھا، جو مختلف اوقات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فیصلے، ارشاد، امرونہی، تقریر واجازت یا عمل کو دیکھ کر یا سن کر خاص خاص اشخاص کے علم میں آئی تھیں اور عام لوگ ان سے واقف نہ ہوسکے تھے۔ یہ سنتیں عبادات اور معاملات دونوں ہی طرح کے اُمور سے تعلق رکھتی تھیں ۔ یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ ان کا تعلق صرف معاملات سے تھا۔ ان سنتوں کا علم جو متفرق افراد کے پاس بکھرا ہوا تھا، اُمت نے اس کو جمع کرنے کا سلسلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فوراً ہی شروع کردیا۔ کیونکہ خلفا، حکام، قاضی، مفتی اور عوام سب اپنے اپنے دائرہ کار میں پیش آمدہ مسائل کے متعلق کوئی فیصلہ یا عمل اپنی رائے اور استنباط کی بنا پر کرنے سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری سمجھتے تھے کہ اس معاملے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ہدایت تو موجود نہیں ہے۔ اسی ضرورت کی خاطر ہر اس شخص کی تلاش شروع ہوئی جس کے پاس سنت کا کوئی علم تھا، اور ہر اس شخص نے جس کے پاس ایسا کوئی علم تھا خود بھی اس کو دوسروں تک پہنچانا اپنا فرض سمجھا۔ یہی روایت ِحدیث کا نقطہ آغاز ہے اور ۱۱/ ہجری سے تیسری چوتھی صدی تک ان