کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 341
سنت کے معتبر ہونے کے دلائل سنت کی جو تقسیم محترم مکتوب نگار نے ’’سنن متوارث جن کا تعلق طریق عبادت سے ہے‘‘ اور ’’باقی ماندہ مواد احادیث‘‘ میں کی ہے، اور ان میں سے مقدم الذکر کو مصؤن و مامون اور مؤخر الذکر کو محتاجِ تنقید قرار دیا ہے، اس سے اتفاق کرنا بھی ہمارے لئے مشکل ہے۔ بظاہر اس تقسیم میں جو تصور کام کررہا ہے، وہ یہ ہے کہ جو طریقے نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادات کے متعلق سکھائے تھے، وہ تو اُمت میں عملاً جاری ہوگئے اور نسل کے بعد نسل ان کی پیروی کرتی رہی، اس لئے یہ ’متوارث‘ سنن محفوظ رہ گئیں ، باقی رہے دوسرے معاملاتِ زندگی تو ان میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات نہ عملاً جاری ہوئیں ، نہ ان پر کوئی نظامِ تمدن ومعاشرت کام کرتا رہا، نہ وہ بازاروں اور منڈیوں میں رائج ہوئیں ، نہ عدالتوں میں ان پر فیصلے ہوئے، اس لئے وہ بس متفرق لوگوں کی سینہ بسینہ روایات تک محدود رہ گئیں اور یہی مواد ایسا ہے کہ اب اس میں بڑی دیدہ ریزی کے بعد قابل اعتبار چیزیں تلاش کرنی ہوں گی۔ فاضل مکتوب نگار کا تصور اگر اس کے سوا کچھ اور ہے تو میں بہت شکر گزار ہوں گا کہ وہ میری غلط فہمی رفع کردیں ۔ لیکن اگر یہی ان کا تصور ہے تو میں عرض کروں گا کہ … یہ تاریخ ِسنت کی واقعی صورت حال سے مطابقت نہیں رکھتا!! اصل حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عہد ِنبوت میں مسلمانوں کے لئے محض ایک پیرومرشد اور واعظ نہیں تھے بلکہ عملاً ان کی جماعت کے قائد، رہنما، حاکم، قاضی، شارع، مربی، معلم سب کچھ تھے۔ اور عقائد و تصورات سے لے کر عملی زندگی کے تمام گوشوں تک مسلم سوسائٹی کی پوری تشکیل آپ ہی کے بتائے سکھائے اور مقرر کئے ہوئے طریقوں پر ہوئی تھی۔ اس لئے یہ کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے نماز، روزے اور مناسک ِحج کی جو تعلیم دی ہو، بس وہی مسلمانوں میں رواج پاگئی ہو، اور باقی باتیں محض وعظ و ارشاد میں مسلمان سن کر رہ جاتے ہوں ۔ بلکہ فی الواقع جو کچھ ہوا وہ یہ تھا کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی نماز فوراً مسجدوں میں رائج ہوئی اور اسی وقت جماعتیں اس پر قائم ہونے لگیں ، ٹھیک اسی طرح شادی بیاہ اور طلاق و وراثت کے متعلق جو قوانین آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کئے، انہی پر مسلم خاندانوں میں عمل شروع ہوگیا، لین دین کے جو ضابطے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کئے، انہیں کا بازاروں میں چلن ہونے لگا، مقدمات کے جو فیصلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئے، وہی ملک کا قانون قرار پائے، لڑائیوں میں جو معاملات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے ساتھ اور فتح پاکر مفتوح علاقوں کی آبادی کے ساتھ کئے، وہی مسلم مملکت کے ضابطے بن گئے اور فی الجملہ اسلامی معاشرہ اور ا س کا نظامِ حیات اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ انہی سنتوں پر قائم ہوا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا تو خود رائج کیں یا جنہیں پہلے کے مروّج طریقوں میں سے بعض کو برقرار رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم