کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 340
ہوں ، جن میں ایک مدت کی ممارست نے ایک تجربہ کار جوہری کی سی بصیرت پیدا کردی ہو اور خاص طور پریہ کہ جن کی عقل اسلامی نظامِ فکر و عمل کے حدود اربعہ سے باہر کے نظریات، اصول اور اقدار لے کر اسلامی روایات کو ان کے معیار سے پرکھنے کا رجحان نہ رکھتی ہو۔ ( بلاشبہ عقل کے استعمال پر ہم کوئی پابندی نہیں لگا سکے، نہ کسی کہنے والے کی زبان پکڑ سکتے ہیں لیکن بہرحال یہ امر یقینی ہے کہ اسلامی علوم سے کورے لوگ اگر اناڑی پن کے ساتھ کسی حدیث کو خوش آئند پاکر قبول اور کسی کو اپنی مرضی کے خلاف پاکر ردّ کرنے لگیں یا اسلام سے مختلف کسی دوسرے نظام فکر و عمل میں پرورش پائے ہوئے حضرات یکایک اٹھ کر اجنبی معیاروں کے لحاظ سے احادیث کے ردّوقبول کا کاروبار پھیلا دیں تو مسلم ملت میں نہ ان کی درایت مقبول ہوسکتی ہے اور نہ اس ملت کا اجتماعی ضمیرایسے بے تکے عقلی فیصلوں پر کبھی مطمئن ہوسکتا ہے۔ اسلامی حدود میں تو اسلام ہی کی تربیت پائی ہوئی عقل اور اسلام کے مزاج سے ہم آہنگی رکھنے والی عقل ہی ٹھیک کام کرسکتی ہے۔ اجنبی رنگ و مزاج کی عقل یا غیر تربیت یافتہ عقل بجز اس کے کہ انتشار پھیلائے، کوئی تعمیری خدمات اس دائرے میں انجام نہیں دے سکتی۔
[1] مولانا کے ہاں درایت کے اسی کھلے مفہوم سے جو عقل، رائے اور ذوق کو بھی شامل ہو، علمائے اہل حدیث کو شدید اختلاف رہا ہے ۔ مولانا کایہ کہنا کہ ’’جن میں ایک مدت کی ممارست نے ایک تجربہ کار جوہری کی سی بصیرت پیدا کردی ہو… ‘‘ دوسرے لفظوں میں یہ ایک ایسے میزان پر حدیث کے پورا اُترنے کا تقاضاہے جس کی ذاتی حیثیت خود مولانا کے نزدیک مستند اور مستحکم نہیں ۔ چنانچہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ ایک مقام پرلکھتے ہیں: ’’یہ چیز (مذکورہ کسوٹی ) چونکہ سراسر ذوقی ہے اور کسی ضابطہ کے تحت نہیں آتی، نہ آسکتی ہے۔ اس لئے اس میں اختلاف کی گنجائش پہلے بھی تھی، اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی …پھر یہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ ایک شخص کا ذوق لامحالہ دوسرے شخص کے ذوق سے کلیۃ ً مطابق ہی ہو۔‘‘ (تفہیمات: ص ۳۲۴) دوسری جگہ لکھتے ہیں : ’’ذوق کسی ضابطہ کے تحت نہیں آتااور نہ ہی آسکتا ہے بلکہ ہر ایک کا ذوق اپنا اپنا ہے۔ اس لئے اس میں اختلاف کی گنجائش پہلے بھی رہی، اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ ‘‘ اگر مولانا کے اس تصورِ درایت کو مان لیا جائے تو یہ رفع ِاختلاف نہیں بلکہ اختلافات کی ایک ابتدا ہوگی۔ اسی تصورِ درایت پر تنقید کرتے ہوئے حافظ عبد اللہ محدث رحمۃ اللہ علیہ روپڑی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں : ’’… جب ذوق ایک قسم کا مزاج ہے جو کتاب اللہ اور سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گہرے مطالعہ سے پیداہوتا ہے تو وہ کون سی سنت ہے جس میں گہرے مطالعہ سے یہ مزاج پیدا ہوگا؟ اگر تو وہ سنت ایسی ہے جو سنداً صحیح ہو اور آپ کے ذوق کی تعمیر کرے، ظاہر ہے کہ اس سنت کی صحت سندا ً ہی ہوگی کیونکہ وہ اس ذوق سے پہلے آپ کو پہنچ چکی ہوگی۔ تو برائے مہربانی اس ذوق کو پرے ہی رکھیں اور اسی صحت پر اکتفا کریں جواس سے پہلے آپ کوحاصل تھی… اسی طرح کتاب اللہ میں بھی گہرا مطالعہ بغیر سنت کے نہیں ہوسکتا کیونکہ سنت کتاب اللہ کی تفسیر ہے پس آپ کا ذوق بے وقت کی راگنی ہے۔‘‘