کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 339
وجہ سے باہر والے تو درکنار خود ہمارے اپنے گھر کے لوگ آج اس کی قدر نہیں پہچان رہے ہیں ۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ علومِ حدیث میں سے اگر صرف ایک علل حدیث ہی کے فن کی تفصیلات سامنے رکھ دی جائیں تو دنیا کو معلوم ہو کہ تاریخی تنقید کس چیز کا نام ہے؟ تاہم میں یہ کہوں گا کہ مزید اصلاح و ترقی کا دروازہ بند نہیں ہے۔ کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ روایات کو جانچنے اور پرکھنے کے جو اُصول محدثین نے اختیار کئے ہیں ، وہ حرفِ آخر ہیں ۔ آج اگر کوئی ان کے اصولوں سے اچھی طرح واقفیت پیدا کرنے کے بعد ان میں کسی کمی یا خامی کی نشاندہی کرے اور زیادہ اطمینان بخش تنقید کے لئے کچھ اُصول معقول دلائل کے ساتھ سامنے لائے تو یقینا اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ ( ہم میں سے آخر کون یہ نہ چاہے گا کہ کسی چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرار دینے سے پہلے اس کے سنت ِثابتہ ہونے کا تیقن حاصل کرلیا جائے اور کوئی کچی پکی بات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہونے پائے۔
’درایت‘ کی حقیقت
احادیث کے پرکھنے میں روایت کے ساتھ درایت کا استعمال بھی، جس کا ذکر محترم مکتوب نگار نے کیا ہے، ایک متفق علیہ چیز ہے۔ اگرچہ درایت کے مفہوم، اصول اور حدود میں فقہاء و محدثین کے مختلف گروہوں کے درمیان اختلاف رہے ہیں ، لیکن بجائے خود اس کے استعمال پر تقریباً اتفاق ہے اور دور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک اسے استعمال کیا جارہا ہے البتہ اس سلسلے میں جو بات پیش نظر رہنی چاہئے اور مجھے امید ہے کہ فاضل مکتوب نگار کو بھی اس سے اختلاف نہ ہوگا، وہ یہ ہے کہ درایت صرف انہی لوگوں کی معتبر ہوسکتی ہے جو قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کے مطالعہ و تحقیق میں اپنی عمر کا کافی حصہ صرف کرچکے
[1] یہاں نشان زدہ جملہ خصوصی توجہ کا مستحق ہے ۔فن حدیث میں ترمیم اور اضافہ کی اجازت اسے ہی دی جاسکتی ہے جو پہلے فن حدیث میں مہارت حاصل کرکے ’اہل فن‘ بن جائے، وہ محدثین کی خدمات کا اعتراف کرنے کے ساتھ اس فن میں انہی کے اندازمیں مزیدبہتری کا خواہش مند ہو۔ مثلاً اس دور میں علامہ البانی کی فن حدیث میں حیثیت مسلمہ رہی ہے ، ان جیسی امتیازی محدثانہ شان رکھنے والا اگر کوئی ترمیم واضافہ کرنا چاہتا ہے تو وہی اضافہ فن حدیث میں اضافہ معتبرہوگا۔دیگر علوم میں بھی دنیا بھر میں یہی اصول چلتا ہے کہ ماہرفن ہی ترمیم واضافہ کے مجاز ہوتے ہیں ۔
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں نکلتا کہ فن حدیث سے ناواقف شخص ’اصلاح‘ کے نام پر فن حدیث کا حلیہ ہی بگاڑ کررکھ دے جیسا کہ اکثر منکرین حدیث کا اصل مقصد تو دین بیزاری اور عقل وفلسفہ پر اندھا اعتماد ہوتا ہے لیکن وہ اس کا اظہار احادیث کی تنقید کے نت نئے اُصول پیش کرکے کرتے ہیں ۔ بعض کو عربی لغت کا لپکا ہوتا ہے اور بعض کو اپنے خانہ ساز مفہوم کو شریعت بنانے کا چسکا اور اس مقصد کے لئے وہ اپنا سارا زورِ تحقیق احادیث پر نکالتے ہیں ۔ یہ رویہ کسی طور مناسب نہیں ، بالخصوص اس کم علمی کے دور میں ، ترمیم واصلاح کی عمومی اجازت دین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دے گی۔