کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 338
کریں ۔ جس حالت پر ہم دنیا میں بالعموم مطمئن رہتے ہیں ، اس کے لئے اتنا امن کافی ہے کہ چوروں کی اکثریت پکڑ کر بند کردی جائے اور جو قلیل تعداد بھی آزاد پھر رہی ہو، اس کے پکڑے جانے کا معقول انتظام موجود ہو۔ کیا ہمارے سپریم کورٹ کے فاضل جج سنت کے معاملے میں اتنے امن پر قانع نہیں ہوسکتے؟ کیا وہ اس مکمل امن سے کم کسی چیز پرراضی نہیں ہیں جس میں سرے سے چوری کے وقوع ہی کا نام و نشان نہ پایا جائے…؟
روایات کی صحت جانچنے کے اصول
آخر میں فاضل محترم تحریر فرماتے ہیں :
’’میں اس معاملے میں بھی افراط و تفریط کا قائل نہیں ۔ سنن متوارث جن کا تعلق طریق عبادات مثلاً نما زیا مناسک ِحج وغیرہ سے ہے، ان کی حیثیت مصؤن ومامون ہے۔لیکن باقی ماندہ موادِ احادیث، روایت کے ساتھ درایت کے اصولوں پر پرکھا جانا چاہئے پیشتر اس کے کہ اس کی حجیت قبول کی جائے، میں تاریخی تنقید کا قائل ہوں ۔‘‘
یہ ایک حد تک صحیح نقطہ نظر ہے لیکن اس میں چند اُمور ایسے ہیں جن پر میں آں محترم کو مزید غوروفکر کی دعوت دوں گا۔ جس تاریخی تنقید کے وہ قائل ہیں ، فن ِحدیث اسی تنقید ہی کا تو دوسرا نام ہے۔ پہلی صدی سے آج تک اس فن میں یہی تنقید ہوتی رہی ہے اور کوئی فقیہ یا محدث اس بات کا قائل نہیں رہا ہے کہ عبادات ہوں یامعاملات، کسی مسئلے کے متعلق بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت دی جانے والی کسی روایت کو تاریخی تنقید کے بغیر حجت کے طور پر تسلیم کرلیا جائے۔ یہ فن حقیقت میں اس تنقید کا بہترین نمونہ ہے اور جدید زمانے کی بہتر سے بہتر تاریخی تنقید کو بھی مشکل ہی سے اس پر کوئی اضافہ و ترقی (Improvement) کہا جاسکتا ہے۔ بلکہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ محدثین کی تنقید کے اُصول اپنے اندر ایسی نزاکتیں اور باریکیاں رکھتے ہیں جن تک موجودہ دور کے ناقدین تاریخ کا ذہن بھی ابھی تک نہیں پہنچا ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر میں بلا خوفِ تردید یہ کہوں گا کہ دنیا میں صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت اور ان کے دور کی تاریخ کا ریکارڈ ہی ایسا ہے جو اس کڑی تنقید کے معیاروں پر کسا جانا برداشت کرسکتا تھا جو محدثین نے اختیار کی ہے، ورنہ آج تک دنیا کے کسی انسان اور کسی دور کی تاریخ بھی ایسے ذرائع سے محفوظ نہیں رہی ہے کہ ان سخت معیاروں کے آگے ٹھہر سکے اور اس کوقابل تسلیم تاریخی ریکارڈ مانا جاسکے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے جدید زمانے کے اہل علم اس فن کا تحقیقی مطالعہ نہیں کرتے اور قدیم طرز کے اہل علم جو اس میں بصیرت رکھتے ہیں ، وہ اس کو عصر حاضر کی زبان اور اسالیب ِبیان میں پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔ اسی