کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 337
کیا احادیث ِموضوعہ کی موجودگی واقعی بے اطمینانی کی موجب ہے؟ آگے چل کر صاحب ِموصوف سنت کو سند قرار نہ دینے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’متعدد احادیث موضوعہ، متداولہ مجموعوں میں شامل ہوگئی ہیں ۔‘‘ اور اس کے ساتھ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ’’اس موضوع پر ضخیم کتابیں بھی لکھی گئی ہیں ۔‘‘ بظاہر اس ارشاد سے ان کا مدعا یہ متصور ہوتا ہے کہ سنت ایک مشکوک چیز ہے۔ ممکن ہے کہ یہ شبہ اختصارِ بیان کی وجہ سے پیدا ہوتا ہو اور فی الواقع ان کا مدعا یہ نہ ہو۔ لیکن اگر ان کا مدعا یہی ہے تو میں عرض کروں گا کہ وہ اس مسئلے پر مزید غور فرمائیں ۔ ان شاء اللہ انہیں خود محسوس ہوگا کہ جس چیز کو وہ سنت کے مشکوک ہونے کی دلیل سمجھ رہے ہیں ، وہی دراصل اس کے محفوظ ہونے کا اطمینان دلاتی ہے۔ میں تھوڑی دیر کے لئے اس سوال کو چھوڑ دیتا ہوں کہ وہ کون سے متداول مجموعے ہیں جن میں احادیث ِموضوعہ شامل ہوگئی ہیں ۔ اگرچہ مختلف محدثین نے جو مجموعے بھی مرتب کئے ہیں ، ان میں اپنی حد تک پوری چھان بین کرکے انہوں نے یہی کوشش کی ہے کہ قابل اعتماد روایات جمع کریں ۔مگر اس معاملے میں صحاحِ ستہ اور موطأ کا پایہ کس قدر ہے، وہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں ہے۔ تاہم تھوڑی دیر کے لئے ہم یہ سن بھی لیں کہ سب مجموعوں میں موضوعات نے کچھ نہ کچھ راہ پالی ہے تو غور طلب بات یہ ہے کہ وہ ’ضخیم کتابیں ‘ جن کا ذکر فاضل مکتوب نگار کررہے ہیں ، آخر ہیں کس موضوع پر؟ ان کا موضوع یہی تو ہے کہ کون کون سی حدیثیں وضعی ہیں ، کون کون سے راوی کذاب اور وضاعِ حدیث ہیں ، کہاں کہاں موضوع احادیث نے راہ پائی ہے، کس کتاب کی کون کون سی روایات ساقط الاعتبار ہیں ، کن راویوں پر ہم اعتماد کرسکتے ہیں اور کن پر نہیں کرسکتے، ’موضوع‘ کو ’صحیح‘سے جدا کرنے کے طریقے کیا ہیں اور روایات کی صحت، ضعف، علت وغیرہ کی تحقیق کن کن طریقوں سے کی جاسکتی ہے؟ ان ضخیم کتابوں کی اطلاع پاکر تو ہمیں امن کا ویسا ہی اطمینان حاصل ہوتا ہے جیسا کسی کو یہ سن کر ہو کہ بکثرت چور پکڑ لئے گئے ہیں ، بڑے بڑے جیل خانے ان سے بھرگئے ہیں ، بہت سے اموالِ مسروقہ برآمد کرلئے گئے ہیں اور سراغ رسانی کا ایک باقاعدہ انتظام موجود ہے جس سے آئندہ بھی چور پکڑے جاسکتے ہیں ۔ لیکن تعجب کی بات ہوگی اگر کسی کے لئے یہی اطلاع اُلٹی بے اطمینانی کا موجب ثابت ہو اور وہ اسے بدامنی کے ثبوت میں پیش کرنے لگے۔ بے شک بڑی مثالی حالت امن ہوتی،اگر چوری کا سرے سے کبھی وقوع ہی نہ ہوتا۔ بلا شبہ اس طرح کی واردات ہوجانے سے کچھ نہ کچھ بے اطمینانی تو پیدا ہوہی جاتی ہے، لیکن مکمل حالت ِامن زندگی کے اور کس معاملے میں ہم کو نصیب ہے جو یہاں ہم اسے طلب