کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 336
ان کی وجہ سے ہم کلامِ الٰہی کے مرجع و سند ہونے کو بھی مختلف فیہ مان لیں گے…؟
کیا اختلاف کی گنجائش ہونا سنت کے ماخذ ِقانون ہونے میں مانع ہے؟
لیکن اگر سنت کا بجائے خود مرجع و سند ہونا مختلف فیہ نہیں ہے بلکہ اختلاف جو کچھ بھی واقع ہوتا ہے اور ہوا ہے، وہ اس امر میں ہے کہ کسی خاص مسئلے میں جس چیز کے سنت ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہو وہ فی الواقع سنت ِثابتہ ہے یا نہیں ؟تو ایسا ہی اختلاف قرآن کی آیات کے مفہوم و منشا میں بھی واقع ہوتا ہے۔ ہر صاحب ِعلم یہ بحث اٹھا سکتا ہے کہ جو حکم کسی مسئلے میں قرآن سے نکالا جارہا ہے، وہ درحقیقت اس سے نکلتا ہے یا نہیں ؟ فاضل مکتوب نگار نے خود قرآن مجید میں اختلاف تفسیر و تعبیر کا ذکر کیا ہے اور اس اختلاف کی گنجائش ہونے کے باوجود وہ بجائے خود قرآن کو مرجع و سند مانتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اسی طرح الگ الگ مسائل کے متعلق سنتوں کے ثبوت و تحقیق میں اختلاف کی گنجائش ہونے کے باوجود فی نفسہٖ ’سنت‘ کو مرجع و سند تسلیم کرنے میں انہیں کیوں تامل ہے؟
یہ بات ایک ایسے فاضل قانون دان سے جیسے کہ محترم مکتوب نگار ہیں ، مخفی نہیں رہ سکتی کہ قرآن کے کسی حکم کی مختلف ممکن تعبیرات میں سے جس شخص، ادارے یا عدالت نے تفسیر و تعبیر کے معروف علمی طریقے استعمال کرنے کے بعد بالآخر جس تعبیر کو حکم کا اصل منشا قرار دیا ہو،اس کے علم اور دائرہ کار کی حد تک وہی حکم ِخدا ہے، اگرچہ یہ دعویٰ نہیں کیاجاسکتا کہ حقیقت میں بھی وہی حکم خدا ہے۔ بالکل اسی طرح سنت کی تحقیق کے علمی ذرائع استعمال کرکے کسی مسئلہ میں جو سنت بھی ایک فقیہ، یا لیجسلیچر(قانون ساز مجلس) یا عدالت کے نزدیک ثابت ہوجائے، وہی اس کے لئے حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، اگرچہ قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حقیقت میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم وہی ہے۔
ان دونوں صورتوں میں یہ امر تو ضرور مختلف فیہ رہتا ہے کہ میرے نزدیک خدا یا رسول کا حکم کیا ہے اور آپ کے نزدیک کیا؟ لیکن جب تک میں اور آپ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری سند (Final Authority) مان رہے ہیں ، ہمارے درمیان یہ امر مختلف فیہ نہیں ہوسکتا کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم بجائے خود ہمارے لئے قانون واجب الاتباع ہے۔ لہٰذا میں جناب ایس اے رحمن صاحب کی یہ بات سمجھنے سے معذور ہوں کہ احکامِ فقہ کی تحقیق میں وہ قرآن کو تو ان اختلافات کے باوجود مرجع و سند مانتے ہیں جو اس کے منشا کی تعیین میں واقع ہوسکتے ہیں اور ہوئے ہیں ، مگر سنت کو یہ حیثیت دینے میں اس بنا پر تامل کرتے ہیں کہ جزئیاتِ مسائل کے متعلق سنتوں کی تشخیص کرنے میں اختلافات واقع ہوئے ہیں اور ہوسکتے ہیں ۔