کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 334
تنگی و ناگواری کے بغیر تسلیم کرنا اور ان فیصلوں کے مقابل میں اپنے آپ کو خود مختار نہ سمجھنا، آپ کے اُسوے اور طریق عمل کی پیروی کو رضاے الٰہی اور نجاتِ آخرت کا مدار سمجھنا اور آپ کے اوامر و نواہی کی پابندی کرنا فرض ہے۔ یہ سارا فرض خود قرآن نے عائد کیا ہے، اس فرض کو عائد کرنے کے بعد اس نے دین کے بڑے اہم اہم اور بنیادی قسم کے مسائل میں خاموشی اختیار کرلی ہے۔ نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم سینکڑوں جگہ دیا ہے مگر ان کی تفصیلات سے خاموشی ہے۔ اسی طرح اس نے زندگی کے بے شمار مسائل میں صرف بعض بنیادی اُمور کی طرف اشارہ کرکے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ کیونکہ اس نے باقی تفصیلات کا دارو مدار اُسوہ ٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر رکھ دیا ہے۔ اب جو لوگ یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ قرآن سے باہر اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہیں بھی محفوظ نہیں رہ گیا ہے، اور احادیث کے نام سے جو ذخائر اُمت کے ہاتھ میں متداول ہیں ، ان کی کوئی حیثیت اور کوئی مقام نہیں ، وہ درحقیقت قرآن کو ناقابل عمل اور اس کی رہنمائی کو سراپا لغو سمجھ رہے ہیں ، اور انکارِ حدیث کا لبادہ اوڑھ کر قرآنی تعلیمات کو روندنے اور کچلنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کو عاجز و درماندہ اور مجبور و بے بس سمجھ رہے ہیں کہ اس نے اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا حکم تو دے دیا اور اسے مدارِ نجات تو ٹھہرا دیا، لیکن چند ہی برس بعد جب چند ’ایرانی سازشیوں ‘ نے اس اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ’سازش‘کی تو اپنی تمام تر قوت و طاقت، ملک و جبروت اور حکمت و قہرمانی کے باوجود ان کی ’سازش‘ کو ناکام نہ بنا سکا، اُمت ِمرحومہ کی دستگیری نہ کرسکا اور ہمیشہ کے لئے گمراہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیا۔ وہ لوگ اپنے یہودی مستشرقین کی پلائی ہوئی شراب ’حقیقت پسندی‘ کے نشے میں بدمست ہوکر ساری اُمت کو بیوقوت سمجھ بیٹھے ہیں اور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی شاہراہِ ہدایت سے کٹ کر اور لوگوں کو کاٹ کر اپنی عقلی تک بندیوں کے خار زار پر دوڑانا چاہتے ہیں ، جو سراسر بے انصافی اور انتہائی زیادتی ہے اور جس کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَاتَبَيَّنَ لَه الْهُدٰی وَ يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤمِنِيْنَ نُوَلِّه مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِه جَهَنَّمَ وَسَاءَ تْ مَصِيْرًَا﴾ (النساء:۱۱۵) ’’ جو شخص ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اختیار کرے گا، اور مؤمنین کی راہ سے الگ تھلگ اپنی راہ بنائے گا، ہم اسے اسی راہ پر ڈال دیں گے جسے اس نے اختیار کیاہے، اور اسے جہنم میں جلائیں گے اور وہ بدترین ٹھکانہ ہے۔‘‘ ٭٭