کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 333
ضروری ہے۔ پس اسی طرح روایتوں کو حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ماننے کے لئے تمام راویوں پر ایمان لانا ضروری ہوگا۔ تو کیا ہمیں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اَن گنت راویوں پر ایمان لانے کی تکلیف دی گئی ہے؟ اولاً : میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دیکھا ہے؟ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے نزول کا بذاتِ خود مشاہدہ کیا ہے؟ نہیں اور یقینا نہیں ۔ بلکہ آپ تو چودھویں صدی میں پیداہوئے ہیں ۔ اب آپ بتائیے کہ آپ کو اس بات کا علم کیسے ہوا کہ حضور پیغمبر تھے؟ اور آپ پر یہی قرآن نازل ہوا تھا جو اس وقت ہمارے ہاں متداول ہے؟ آپ یہی کہیں گے کہ اس امت کے اجتماعی نقل و تواتر سے یہ قرآن ہم تک پہنچا ہے، اس لئے ہم اس کی صحت کا یقین رکھتے ہیں ۔ اب مجھے عرض کرنے دیجئے کہ آپ کے مقرر کئے ہوئے اُصول کے مطابق قرآن پر ایمان لانے کے لئے صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پرایمان لانا کارآمد نہ ہوسکے گا،بلکہ اس چودہ سو برس کے دوران پیداہونے والے تمام مسلمان مردوں اور عورتوں پر (خواہ زاہد و متقی ہوں ، خواہ فاسق و فاجر) ایمان لانا ہوگا تو کیا ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس اُمت کے اَن گنت نیک و بدانسانوں پر ایمان لانے کی تکلیف دی گئی ہے؟ انا للَّہ ثانیاً : قرآن نے جو یہ حکم دیا ہے کہ اگر کوئی فاسق خبر لائے تو تحقیق کرلو، جس کا صاف تقاضا یہ ہے کہ اگر ’متقی‘ خبر لائے تو تحقیق کی بھی حاجت نہیں ، یوں ہی مان لو۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اگر اُسوہ ٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی شخص کوئی خبر دے تو قرآن کے اس اصول اور حکم پر عمل کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ اگر قرآن کے اس حکم پر عمل کیا گیا، اور اس کی بتائی ہوئی خبر قابل قبول ثابت ہوئی تو کیا اس خبر کو ماننے کیلئے اس شخص پر ایمان لانا پڑے گا؟ اگر ایمان لانا پڑے گا تو پھر ایسے جتنے بھی افراد پر ایمان لانا پڑے، لائیے؛ یہ تو عین حکم قرآنی کا اتباع ہوگا۔ اور اگر نہیں لانا پڑے گا تو پھر آپکے اس چیخ و پکار کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کہ روایتوں کو قبول کرنے کا مطالبہ کرکے درحقیقت ہم سے اَن گنت راویوں پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے؟ اللہ کے بندے! اپنے تفقہ فی الدین اور تدبر فی القرآن کی کچھ تو لاج رکھنی تھی۔ ہماری پچھلی گذارشات سے واضح ہوچکا ہے کہ آپ جس چیز کو ایک ’ٹھوس حقیقت‘ سمجھے بیٹھے ہیں وہ درحقیقت ایک پھسپھسا تخیل ہے جس کی حیثیت﴿کَشَجَرَةٍ خَبِيْثَةِ نِ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الاَْرْضِ مَالَهَا مِنْ قَرَارٍ﴾(ابراہیم: ۲۶) سے زیادہ نہیں ہے۔ اگر کوئی ٹھوس حقیقت ہے تو صرف یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کی کتاب پر ایمان لانافرض ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانا، آپ کی اطاعت کرنا، آپ کے فیصلوں کو دل کی