کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 332
٭ آپ نے حضرت یوسف علیہ السلام کا نام بھی لیا ہے۔ حالانکہ صحیح احادیث میں تو ان پر کوئی الزام نہیں ۔ بلکہ انہیں کریم ابن کریم ابن کریم ابن کریم کہا گیا ہے اور قید خانے میں ان کی ثابت قدمی پر ان کی مدح و توصیف کی گئی ہے۔
البتہ قرآن میں یہ بتلایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے حقیقی بھائی سے ساز باز کرکے ان کے غلے میں شاہی برتن رکھ دیا۔ پھر اپنے بھائیوں کے قافلے پر چوری کا الزام عائد کراکر ان کی تلاشی لی اور حقیقت چھپانے کے لئے پہلے دوسرے بھائیوں کی تلاشی لی، پھر اپنے حقیقی بھائی کے غلہ سے برتن نکال کر دوسرے بھائیوں سے لئے گئے اقرار کے مطابق اپنے حقیقی بھائی کو اپنے پاس روک لیا۔
غالباً آپ کے ذہن میں یہی واقعہ تھا۔ لیکن آپ کو یہ یاد نہیں رہا کہ اس کا ذکر بھی قرآن میں ہے۔ اسلئے آپ نے اسے شانِ انبیا کے خلاف سمجھ کر احادیث اور روایتوں پر ’الزام تراشی‘ کا الزام تراشنے میں اپنی چابک دستی کا مظاہرہ فرما دیا۔ لیکن آپ کی اس چابک دستی کی زَد حدیث کے بجائے قرآن پر آپڑی۔
قریب قریب یہی معاملہ ان بقیہ شخصیتوں کا ہے جن کے اسمائِ گرامی آپ نے ذکر کئے ہیں ، اگر تفصیل میں آپ جانا چاہتے ہیں تو چلئے ہم بھی تیا رہیں
سمجھ کے رکھیو قدم دشت ِخار میں مجنوں کہ اس نواح میں سودا برہنہ پا بھی ہے!
ہماری اس توضیح سے یہ حقیقت بھی سمجھ میں آگئی ہوگی کہ آیا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا نام سن کر جماعت اہلحدیث پر ’سہم کا دورہ‘ پڑ جاتا ہے، یا آپ حضرات پرجوشِ مخالفت میں سرسامی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، جس کے بعد آپ حضرات کو ہوش ہی نہیں رہتا کہ آپ کیا بک رہے ہیں اور کس کے خلاف بک رہے ہیں ۔
آپ نے حدیث پر ’مثلہ معہ‘کی پھبتی بھی چست فرمائی ہے۔ مگر بتائیے کہ جب قرآن مجید نے اُسوہ ٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مدارِ نجات قرار دے کر اپنے بنیادی احکام تک کی تفصیلات اسی پر چھوڑ دی ہیں ، اور اس اُسوۂ کو اس حد تک وسعت دی ہے کہ پیغمبروں کے خواب تک کو وحی الٰہی اور حکم الٰہی کا درجہ دے رکھا ہے اور جگہ جگہ ایسی وحی کے حوالے دیئے ہیں جن کا قرآن میں کہیں نام و نشان تک نہیں تو خود اس قرآن کے بارے میں کیا ارشاد ہوگا؟ حدیث سے پہلے آپ کی اس پھبتی کی زَد تو خود قرآن ہی پر پڑ رہی ہے۔اگر آپ اسے ماننے کے لئے تیار نہیں تو آئندہ ہم اس اجمال کی تفصیل بھی پیش کرسکتے ہیں ۔
اَن گنت راویوں پر ایمان لانے کا معاملہ
آپ نے یہ بھی سوال اٹھایا ہے کہ قرآن پر ایمان لانے کے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانا