کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 331
سیاق و سباق میں کیا تھا، اس کا منشا یا تو یہ تھا کہ میں تمہارے ساتھ چلنے کے لائق نہیں ۔ یا یہ کہ بیماری کے سبب میرے لئے بات چیت کرنی مشکل ہے۔ لیکن جوں ہی قوم ہٹی، وہ جھٹ اُٹھے اور بتوں پر پل پڑے۔ اگر واقعتاً وہ ایسے ہی بیمار تھے جیسی بیماری کا اظہار فرمایا تھا تو کیا وہ بت خانے تک پہنچ سکتے تھے؟ اور بتوں کو توڑسکتے تھے؟ (۲) دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے بت شکنی کا الزام بڑے بت پر عائد کیا۔ کیا واقعتاً اُسی نے باقی بتوں کو توڑا تھا؟ یقینا نہیں ۔ ثابت ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دونوں باتیں خلافِ واقعہ کہی تھیں ، جسے عربی زبان میں ’کذب‘ کہتے ہیں ۔ تیسرے واقعہ کی تفصیل صحیح بخاری میں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی سارہ کے ہمراہ ایک جابر حکمراں کے علاقے سے گزرے۔ وہ حکمراں خوبصورت عورتیں چھین لیتاتھا۔ اگر ساتھ میں شوہر ہوتا تو قتل کردیا جاتا تھا۔ حضرت سارہ کوبھی اس حکمران نے طلب کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ تم مجھے اپنا بھائی ظاہر کرنا۔ متعدد مآخذ میں اس کی وضاحت بھی ہے کہ حضرت سارہ کچھ دور کے تعلق سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بہن ہوتی تھی؛ یوں بھی وہ دینی بہن تھیں ۔ لیکن جس سیاق میں وہ اپنے آپ کو بہن کہتیں ، اس سے سننے والا یہ سمجھتا کہ وہ حقیقی بہن ہیں ۔ اس لئے یہ بات خلافِ واقعہ ہوئی۔ یہ تینوں معاملے ایک اور پہلو سے بھی قابل غور ہیں ۔ پہلے اور دوسرے موقع پر خلافِ واقعہ بولے بغیر بھی مقصد حاصل ہوسکتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کہہ سکتے تھے کہ آج مجھے معاف رکھیں ، میں آپ حضرات کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اسی طرح وہ بڑے بت کا نام لئے بغیر کہہ سکتے تھے کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہو؟ اپنے ان معبودوں سے پوچھ لو، اگر بولتے ہوں ۔ لیکن تیسرا موقع بڑانازک تھا۔ بیوی اور جان دونوں خطرے میں تھے۔ ایسی صورت میں قرآن نے ا رتکابِ کفر کی اجازت دی ہے: ﴿ اِلاَّ مَنْ اُکْرِهَ وَقَلْبُهٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِيْمَانِ﴾ اس لئے یہ تیسرا واقعہ بھی قرآن کی نگاہ میں معیوب نہیں ۔ یہ ہے ان تین کذبات کا خلاصہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب ہیں ۔ ان میں سے پہلے دو کی نسبت خود قرآن نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف کی ہے۔ صحیح بخاری میں ان کا صرف حوالہ دیا گیا ہے۔ البتہ تیسرا واقعہ صرف صحیح بخاری میں ہے۔اب ظاہر ہے کہ آپ اس نسبت کو ’الزام تراشی‘اور ’دروغ بافی‘ کامرقع قرار دے رہے ہیں تو آپ کے اس الزام کا صرف ۱/۳ حصہ صحیح بخاری پر عائد ہوتا ہے جس کے جواز کا فتویٰ دینے میں خود قرآن بھی شریک ہے اور اس الزام کا باقی ۲/۳ حصہ قرآن پر عائد ہوتا ہے۔ غور فرمائیے کہ آپ نے کس جسارت اور دلیری کے ساتھ حدیث دشمنی کے جوش میں قرآنِ مجید ہی کو ’الزام تراشی‘ اور ’دروغ بافی‘ کامرقع قرا ردے دیا۔ فنعوذ باللَّه من شرور أنفسنا