کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 330
مجموعوں میں ایسی روایات بکثرت ملتی ہیں جو ’الزام تراشی‘، ’دروغ بافی‘ اور ’فحش نگاری‘ کامرقع ہیں ۔ اور اس ’بکثرت‘کی مقدار خود آپ لوگوں کی نشاندہی کے مطابق ایک فیصدی بھی نہیں ۔ کیااسی کو ’بکثرت‘ کہاجاتا ہے؟ پھر جہاں تک ’دروغ بافی‘ کا سوال ہے تو حقیقت کھل چکی ہے۔ جب تک آپ یہودی مستشرقین کی خردبین لگا کر دیکھیں گے، یرقان کے مریض کی طرح آپ کو ہر طرف دروغ ہی دروغ نظر آئے گاکیونکہ یہ مرض آپ کے رَگ و پے میں سرایت کرچکا ہے۔ اس کا واحد علاج یہ ہے کہ آپ حقیقت پسندی اختیار کریں ۔ اور معاملہ کو اس کی صحیح اور اصل شکل میں ملاحظہ فرمائیں ۔ ورنہ جب تک آپ گھر کے مالک اور محافظ کوچور اور پولیس پارٹی کو ڈاکو سمجھیں گے، آپ کو اس بیماری سے نجات نہیں مل سکتی۔ باقی رہا ’الزام تراشی‘ اور ’فحش نگاری‘ کا دعویٰ تو یہ بھی سراسر زبردستی ہی ہے۔ آپ کے اشارے یا تو ان روایات کی طرف ہیں جن کے جھوٹ ہونے کی قلعی خود محدثین نے کھول دی ہے۔ لیکن آپ کمال ڈھٹائی سے ان چوری پکڑنے والوں ہی کو چور کہہ رہے ہیں یا پھر آپ نے ایسی باتوں کو ’الزام تراشی‘ اور ’فحش نگاری‘ قرار دے دیا ہے جن کی نظیریں خود قرآن میں موجود ہیں ۔ تو کیا (نعوذ باللہ) آپ قرآن میں ’الزام تراشی‘ اور ’فحش نگاری‘ تسلیم کریں گے؟ اگر نہیں تو پھر حدیث اور روایات کی ویسی ہی باتوں کو آپ ’الزام تراشی‘ اور ’فحش نگاری‘ قرار دینے پر کیوں تلے بیٹھے ہیں ؟ آپ نے جن روایات کی طرف اشارہ کیا ہے، آئیے اُنہیں میں سے ایک آدھ سے اس کی توضیح کرتے ہیں : آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام لیا ہے۔ ان کی بابت صحیح بخاری میں مذکو رہے کہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں تین کذبات کا ارتکاب کیاہے۔کذب، جھوٹ، غلط اور خلافِ واقعہ بات کو کہتے ہیں ۔ صحیح بخاری کی یہ روایت سنتے ہی آپ حضرات بھی ، اور قائلین حدیث میں سے بعض عقلیت پسند بھی سیخ پا ہوجاتے ہیں ۔ لیکن آئیے ذرا سنجیدگی سے اس روایت پر غور کریں !! اس روایت میں جن تین کذبات کا انتساب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف کیا گیا ہے، ان میں سے دو کی تفصیلات خود قرآن میں مذکور ہیں ۔ قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم سے باتیں کررہے تھے۔ اچانک انہوں نے تاروں پرایک نظر ڈالی اور کہا کہ میں بیمار ہوں ۔ قوم چلی گئی اور حضرت ابراہیم نے جھٹ اُٹھ کر ان کے بتوں کو توڑ پھوڑ ڈالا۔ قوم نے واپس آکر معاملے کی تفتیش کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ تمہاری حرکت ہے؟ انہوں نے کہا: بلکہ اس بڑے بت نے یہ حرکت کی ہے، اگر تمہارے یہ معبود بولتے ہیں تو ان سے پوچھ لو… الخ اس میں دو باتیں قابل غور ہیں : (۱) ایک یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیماری کا عذر جس