کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 329
موجود ہے جو ۲۳ سال تک شب و روز کی مصروف زندگی میں ایک عظیم الشان تحریک برپا کرتا ہے۔ ہزاروں افراد کو اپنی تعلیم و تربیت سے تیار کرتا ہے۔ ان سے کام لے کر ایک پورے ملک کی فطری، اخلاقی، تمدنی اور معاشی زندگی میں انقلاب پیدا کرتا ہے۔ اپنی قیادت و رہنمائی میں ایک نیا معاشرہ اور ایک نئی ریاست وجود میں لاتا ہے۔ اس معاشرے میں اس کی ذات ہروقت ایک مستقل نمونہ ہدایت بنی رہتی ہے۔ ہر حالت میں لوگ اس کو دیکھ دیکھ کر یہ سبق لیتے ہیں کہ کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔ ہر طرح کے لوگ شب و روز اُس سے ملتے رہتے ہیں اور وہ ان کو عقائد و افکار، سیرت و اخلاق، عبادات و معاملات، غرض ہر شعبۂ زندگی کے متعلق اُصولی ہدایات بھی دیتا ہے اور جزئی اَحکام بھی۔ پھر اپنی قائم کردہ ریاست کا فرمانروا، قاضی، شارع، مدبر اور سپہ سالار بھی تنہا وہی ہے۔ اور دس سال تک اس مملکت کے تمام شعبوں کو وہ خود اپنے اُصولوں پرقائم کرتا اور اپنی رہنمائی میں چلاتا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آج اس زمانے میں یہ سارا کام کسی ایک ملک میں ہو تو اس کا ریکارڈ ’ایک کتاب‘کی شکل میں مرتب ہوسکتا ہے؟
کیا ہر وقت اس لیڈر کے ساتھ ٹیپ ریکارڈ لگا رہ سکتا ہے؟ کیا ہر آن فلم کی مشین اس کی شبانہ روز نقل و حرکت ثبت کرنے میں لگی رہ سکتی ہے؟ اور اگر یہ نہ ہوسکے تو کیا آپ کہیں گے کہ وہ ٹھپا جو اس لیڈر نے ہزاروں لاکھوں افراد کی زندگی پر، پورے معاشرے کی ہیئت اور پوری ریاست کے نظام پر چھوڑا ہے، سرے سے کوئی شہادت ہی نہیں ہے جس کا اعتبار کیا جاسکے؟ کیا آپ یہ دعویٰ کریں گے کہ اس لیڈر کی تقریر سننے والے، اس کی زندگی دیکھنے والے، اس سے ربط و تعلق رکھنے والے بے شمار افراد کی رپورٹیں سب کی سب ناقابل اعتماد ہیں ، کیونکہ خود اس لیڈر کے سامنے وہ ’ایک کتاب‘ کی شکل میں مرتب نہیں کی گئیں اور لیڈر نے ان پر اپنے ہاتھ سے مہر تصدیق ثبت نہیں کی؟ کیا آپ فرمائیں گے کہ اس کے عدالتی فیصلے اور اس کے انتظامی احکام، اس کے قانونی فرامین، اس کے صلح و جنگ کے معاملات کے متعلق جتنا مواد بھی بہت سی مختلف صورتوں میں موجود ہے، اس کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ ایک ’جامع و مانع کتاب‘کی شکل میں تو ہے ہی نہیں ؟ ‘‘ (ترجمان القرآن: منصب ِرسالت نمبر ، ص۳۳، ۳۴،۱۶۳،۳۳۶ تا ۳۳۸)
اس وضاحت کے بعد یہ بھی عرض ہے کہ آپ ذخیرۂ حدیث کو فن تاریخ کے معیار پر پورا اُترتا ہوا تسلیم نہیں کرتے، اس لئے آپ کو چیلنج ہے کہ آپ دنیا کے کسی اعلیٰ سے اعلیٰ معیارِ تاریخ کو معیارِ حدیث کے ہم پلہ ہی ثابت کردیجئے، صرف بڑا بول بول دینا کوئی کمال نہیں !!
الزام تراشی اور نگاری کلامی کے الزام کی حقیقت
آپ نے منکرین حدیث کا اندازِ اِدّعا بلکہ اندازِ افترا اختیار کرتے ہوئے حدیث کے ایک اور ’تاریک پہلو‘ کی نشاندہی کی ہے جسے آپ کے بقول ’اسلامی تاریخ‘ کا ’المیہ‘ کہنا چاہئے کہ حدیث کے