کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 328
کہ زندہ اور قابل اعتماد انسانوں کی شہادت اس کی توثیق نہ کرے۔ محض لکھی ہوئی کوئی چیز اگرہمیں ملے اور ہم اصل لکھنے والے کا خط نہ پہچانتے ہوں ، یا لکھنے والا خود نہ بتائے کہ یہ اسی کی تحریر ہے ، یا ایسے شواہد موجود نہ ہوں جو اس امر کی تصدیق کردیں کہ یہ تحریر اسی کی ہے جس کی طرف منسوب کی گئی ہے تو ہمارے لئے محض وہ تحریر یقینی کیا معنی، ظنی حجت بھی نہیں ہوسکتی… یہ ایک اصولی حقیقت ہے جسے موجودہ زمانے کا قانونِ شہادت بھی تسلیم کرتاہے اور فاضل جج خود اپنی عدالت میں اس پر عمل فرماتے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ قرآنِ مجید کے محفوظ ہونے پر ہم جو یقین رکھتے ہیں ، کیا اس کی بنیاد یہی ہے کہ وہ لکھاگیاتھا؟ کاتبین ِوحی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے صحیفے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے املا کرائے تھے، آج دنیا میں کہیں موجود نہیں ۔ اگر موجود ہوتے تو بھی آج کون یہ تصدیق کرتا کہ یہ وہی صحیفے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائے تھے۔ خود یہ بات بھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس قرآن کونزولِ وحی کے ساتھ ہی لکھوالیاکرتے تھے، زبانی روایات ہی سے معلوم ہوئی ہے، ورنہ اس کے جاننے کا کوئی دوسرا ذریعہ نہ تھا۔ پس قرآن کے محفوظ ہونے پر ہمارے یقین کی اصل وجہ اس کا لکھا ہوا ہونا نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ زندہ انسان زندہ انسانوں سے مسلسل اس کو سنتے اور آگے زندہ انسانوں تک اسے پہنچاتے چلے آرہے ہیں ۔ لہٰذا یہ خیال ذہن سے نکال دینا چاہئے کہ کسی چیز کے محفوظ ہونے کی واحد سبیل اس کا لکھا ہوا ہونا ہے۔ ان اُمور پر اگر فاضل جج اور ان کی طرح سوچنے والے حضرات غور فرمائیں تو انہیں یہ تسلیم کرنے میں ان شاء اللہ کوئی زحمت پیش نہ آئے گی کہ اگر معتبر ذرائع سے کوئی چیز پہنچے تو وہ سند بننے کی پوری قابلیت رکھتی ہے خواہ وہ لکھی نہ گئی ہو۔ تمام منکرین حدیث بار بار قرآن کے لکھے جانے اور حدیث کے نہ لکھے جانے پر اپنے دلائل کا دارومدار رکھتے ہیں ۔ لیکن یہ بات کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانے میں کاتبانِ وحی سے نازل شدہ وحی لکھوا لیتے تھے۔ اور اس تحریر سے نقل کرکے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قرآن کو مصحف کی شکل میں لکھا گیا، اور بعدمیں اسی کی نقلیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے شائع کیں ، یہ سب کچھ محض حدیث کی روایات ہی سے دنیا کو معلوم ہوا ہے، قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ نہ حدیث کی روایات کے سوا اس کی کوئی دوسری شہادت دنیا میں کہیں موجود ہے۔ اب اگر حدیث کی روایات سرے سے قابل اعتماد ہی نہیں تو پھر کس دلیل سے دنیا کو آپ یقین دلائیں گے کہ فی الواقع قرآن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لکھا گیا تھا؟ کسی کا یہ کہنا کہ عہد ِنبوی کے رواجات، روایات، نظائر، فیصلوں ، احکام اور ہدایات کا پورا ریکارڈ ہم کو ’ایک کتاب‘کی شکل میں مرتب شدہ ملنا چاہئے تھا، درحقیقت ایک خالص غیر عملی طرزِ فکر ہے اور وہی شخص یہ بات کہہ سکتا ہے جو خیالی دنیا میں رہتا ہو۔ آپ قدیم زمانے کے عرب کی حالت چھوڑ کر تھوڑی دیر کے لئے آج اس زمانے کی حالت کو لے لیجئے جب کہ احوال و وقائع کو ریکارڈ کرنے کے لئے ذرائع بے حد ترقی کرچکے ہیں ۔ فرض کرلیجئے کہ اس زمانے میں کوئی لیڈر ایسا