کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 327
’’اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ سمجھ لینی چاہئے کہ قرآن کو جس وجہسے لکھوایا گیا، وہ یہ تھی کہ اس کے الفاظ اور معنی دونوں من جانب اللہ تھے۔ اس کے الفاظ کی ترتیب ہی نہیں ، اس کی آیتوں کی ترتیب اور سورتوں کی ترتیب بھی اللہ کی طرف سے تھی۔اس کے الفاظ کو دوسرے الفاظ سے بدلنا بھی جائز نہ تھا۔ اور وہ اس لئے نازل ہوا تھا کہ لوگ انہی الفاظ میں اسی ترتیب کے ساتھ اس کی تلاوت کریں ۔ اس کے مقابل میں سنت کی نوعیت بالکل مختلف تھی ، وہ محض لفظی نہ تھی بلکہ عملی بھی تھی، اور جو لفظی تھی، اس کے الفاظ قرآن کے الفاظ کی طرح بذریعہ وحی نازل نہیں ہو ئے تھے بلکہ حضور نے اس کو اپنی زبان میں ادا کیا تھا۔ پھر اس کا ایک بڑا حصہ ایسا تھا جسے حضور کے ہمعصروں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا۔ مثلاً یہ کہ حضور کے اخلاق ایسے تھے، حضور کی زندگی ایسی تھی، اور فلاں موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں عمل کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و تقریریں نقل کرنے کے بارے میں بھی یہ پابندی نہ تھی کہ سننے والے انہیں لفظ بلفظ نقل کریں ۔ بلکہ اہل زبان سامعین کے لئے یہ جائز تھا اور وہ اس پرقادر بھی تھے کہ آپ سے ایک بات سن کر معنی و مفہوم بدلے بغیر اسے اپنے الفاظ میں بیان کردیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کی تلاوت مقصود نہ تھی بلکہ اس تعلیم کی پیروی مقصود تھی جو آپ نے دی ہو۔ احادیث میں قرآن کی آیتوں اور سورتوں کی طرح یہ ترتیب محفوظ کرنا بھی ضروری نہ تھا کہ فلاں حدیث پہلے ہو اور فلاں اس کے بعد۔ اس بنا پراحادیث کے معاملے میں یہ بالکل کافی تھا کہ لوگ اسے یاد رکھیں اور دیانت کے ساتھ انہیں لوگوں تک پہنچائیں ۔ ان کے معاملے میں کتابت کی وہ اہمیت نہ تھی جو قرآن کے معاملے میں تھی۔ دوسری بات جسے خوب سمجھ لینا چاہئے، یہ ہے کہ کسی چیز کے سند اور حجت ہونے کے لئے اس کا لکھا ہوا ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔ اعتماد کی اصل بنیاد اس شخص یا ان اشخاص کا بھروسے کے قابل ہونا ہے جس کے یا جن کے ذریعہ سے کوئی بات دوسرے تک پہنچے، خواہ وہ مکتوب ہو یا غیر مکتوب۔ خود قرآن کو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے لکھوا کر نہیں بھیجا بلکہ نبی کی زبان سے اس کو بندوں تک پہنچایا۔ اللہ نے پورا انحصار اس بات پر کیا کہ جو لوگ نبی کو سچا مانیں گے، وہ نبی کے اعتماد پر قرآن کو ہمار ا کلام مان لیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قرآن کی جتنی تبلیغ و اشاعت کی، زبانی ہی کی۔ آپ کے جو صحابہ مختلف علاقوں میں جاکر تبلیغ کرتے تھے، وہ قرآن کی سورتیں لکھی ہوئی نہ لے جاتے تھے۔ لکھی ہوئی آیات اور سورتیں تو اس تھیلے میں پڑی رہتی تھیں جس کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کاتبانِ وحی سے لکھوا کر ڈال دیا کرتے تھے۔ باقی ساری تبلیغ و اشاعت زبان سے ہوتی تھی اور ایمان لانے والے اس ایک صحابی کے اعتماد پریہ بات تسلیم کرتے تھے کہ جو کچھ وہ سنا رہا ہے، وہ اللہ کا کلام ہے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حکم وہ پہنچا رہا ہے، وہ حضور ہی کا حکم ہے۔ تیسرا اہم نکتہ اس سلسلے میں یہ ہے کہ لکھی ہوئی چیز بجائے خود کبھی قابل اعتماد نہیں ہوتی، جب تک