کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 326
رواۃ کتنے ہی زیادہ مستند اور قابل اعتماد کیوں نہ ہوں ، بلکہ خود واقعہ کے عینی شاہد ہی نے اسے کیوں نہ قلم بند کیا ہو۔ میں آپ سے یہ عرض کروں گا کہ اگر آپ کا یہ ضابطہ تسلیم کرلیا جائے تو پھر قرآن مجید کی استنادی حیثیت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ قرآنِ مجید میں گذشتہ اقوام (قومِ نوح، قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ مدین واصحاب الایکہ، قومِ ابراہیم، قومِ لوط، قومِ سبا وغیرہ وغیرہ) کے واقعات ان کے وقوع کے ہزار ہا ہزار برس کے بعد قلم بند کئے گئے ہیں ۔ پھر آپ کے مذکورہ بالا اُصول کی رو سے انہیں کیونکر مستند تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ ایک دشمن ِاسلام بالکل آپ ہی کے لب و لہجہ اور اندازِ گفتگو میں کہہ سکتا ہے کہ یہ سارے واقعات عرب قصہ گو اور داستان سرا اپنی شبانہ محفلوں ، قومی میلوں اور بازاری اجتماعات میں دارا و سکندر اور رستم و اسفند یار کے قصوں کی طرح گرمی ٔ محفل کے لئے بیان کیا کرتے تھے۔ یہ محض عرب کی دیو مالائی کہانیوں کا حصہ تھے، ان کی کوئی حیثیت و اہمیت نہ تھی۔ بلکہ یہ زید، عمرو، بکر کی زبان پربے روک ٹوک گشت کیا کرتے تھے، لیکن ہزاروں برس بعد جب قرآن نے انہی قصوں کو قانونِ قدرت کے تاریخی تسلسل کی شہادت کی حیثیت سے پیش کیا توکلامِ الٰہی بن گیا جس پر ایمان لانا واجب قرار پاگیا اور جس کا انکا رکرنا کفر ٹھہر گیا۔ بھلا ان قصوں کاکیوں کر اعتبار کیا جائے جو ہزارہا برس تک قصہ گویوں اور داستان سراؤں کا موضوعِ سخن بنے رہے، ہر کہ و مہ کی زبان پربے روک ٹوک گشت کرتے رہے اور جنہیں ان کے وقوع کے ہزارہا برس بعد ایک نبوت کے دعویدار نے قید ِکتابت میں لاکر وحی الٰہی اور دین و ایمان کا جزو قرار دے دیا۔ بتائیے! اگر آپ کے سامنے دشمن اسلام یہ سوال پیش کردے تو آپ اپنے مذکورہ بالا اُصول پرقائم رہتے ہوئے کیا جواب دے سکتے ہیں ؟ اور اگر قرآن کی استنادی حیثیت ماننے اور منوانے کے سلسلے میں آپ اس اُصول کے پابند نہیں توحدیث کی استنادی حیثیت کے معاملے میں اس اصول کی پابندی پر آپ کو اصرار کیوں ہے…؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کو محفوظ، مستند اور قابل اعتماد قرار دینے کے لئے اس کا قید ِکتابت میں آیا ہوا ہونا ضروری نہیں ہے۔ یعنی یہ اُصول اور معیار ہی سرے سے غلط ہے کہ اگر کوئی بات اپنے وقوع کے وقت قید ِکتابت میں آگئی توقابل اعتماد ہوگی، ورنہ نہیں ۔ اس لئے یہ خیال صحیح نہیں کہ قرآن اس لئے قابل اعتماد واِستناد ہے کہ وہ لکھوا لیا گیا تھا۔ اور احادیث اس لئے قابل اعتماد واستناد نہیں کہ وہ عہد ِرسالت اور عہد ِخلافت میں لکھوائی نہیں گئی تھیں ۔ بلکہ اس سلسلہ میں معاملہ کی جو صحیح نوعیت ہے، اسے ذیل کے الفاظ میں سنئے: