کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 325
یہ روایتیں اہل علم کے سامنے آئیں ،گھڑنے والے پکڑے گئے۔ کیونکہ کسی بھی بڑے محدث کے ہزاروں شاگرد ہوا کرتے تھے۔ اب ممکن نہ تھا کہ کوئی شخص اس محدث سے ایسی حدیث روایت کرے جو ان ہزاروں شاگردوں میں سے کسی کو بھی معلوم نہ ہو اور وہ اس پر بھی اس کا اعتبار کرلیں ۔ ایسے راوی پر فوراً جرح شروع ہوتی تھی۔ پچیسیوں تنقیحات ایسی تھیں کہ کسی جعلساز کے لئے نکل بھاگنے کی کوئی راہ باقی نہ بچتی۔ تھوڑی سی زد وخورد کے بعد اسے ہتھیار ڈال دینے پڑتے اور اپنی جعلسازی کا اقرار کرلینا پڑتا۔ محدثین نے حدیث کی صحت پرکھنے کے لئے ایسے سخت اصول و ضوابط بنائے اور ایسا کڑا معیار مقرر کیا کہ دنیا آج تک اس کی نظیر نہ لاسکی۔ کوئی دس لاکھ افراد کی زندگیاں کھنگال کر رکھ دیں ۔ پھر جملہ افراد کو اس کسوٹی پر پرکھ کر کھرا کھوٹا الگ کردکھایا۔ تدوین ِحدیث کے تیسرے اور چوتھے دور میں ان جعلی احادیث کا ذخیرہ بھی تالیفی شکل میں باقاعدہ علیحدہ کردیا گیا، تاکہ راہِ حق کے راہرو کے لئے کسی بھی مرحلہ میں مشکل پیش نہ آسکے!! یہ ہے کہ واقعہ کی اصل صورت جو ان کتابوں اور حوالوں سے مستفاد ہوتی ہے جن کی بنیاد پر آپ حضرات نے ’ایرانی سازش‘کا بدبودار افسانہ تیار کیا ہے۔ اگر آپ کا ایمان بالقرآن آپ کو صدق و دیانت کی اجازت دیتا ہے تو واقعہ کو اس کی حقیقی صورت میں پیش کیجئے اور قبول کیجئے، ورنہ اپنے دعویٰ کی دلیل لائیے…!! آپ کے استدلال کی نوعیت بالکل وہی ہے کہ کسی گھر میں چور گھس جائے تو آپ گھر والے ہی کو چور کہنے لگیں اور جب آپ سے ثبوت مانگا جائے تو آپ فرمائیں کہ ثبوت یہ ہے کہ اس کے گھر میں چور گھسے تھے ، یا کوئی پولیس پارٹی ڈاکوؤں کو گرفتار کر لائے تو آپ پولیس پارٹی ہی کو ڈاکو کہیں اور ثبوت یہ پیش کریں کہ انہوں نے ڈاکوؤں کو گرفتار کیا ہے۔ جنابِ والا! محدثین نے جعل سازوں سے کوئی حدیث روایت نہیں کی ہے اور نہ اپنے ذخیرے میں ان کی روایات کو دَر آنے دیا ہے؛ بلکہ ان کی جعل سازی پکڑ کر لوگوں کو بتلایا ہے کہ فلاں نے فلاں سے روایتیں گھڑی ہیں ۔ اس فرض شناسی پر خود محدثین اور ان کی روایتیں آخر موردِ الزام کیسے ٹھہر گئیں۔بسوخت عقل ز حیرت کہ ایں چہ بوا لعجبی ست آپ نے ذرا آگے چل کر اسی سلسلے میں اناجیل اربعہ کی استنادی حیثیت کی کمزوری بھی بطورِ شہادت پیش کی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ذہن پر یہ ضابطہ کابوس بن کر مسلط ہوچکا ہے کہ کوئی بھی واقعہ اسی وقت قابل قبول ہوسکتا ہے جب کہ وہ علیٰ الفور قید ِکتابت میں آچکا ہو۔ صرف چند برسوں کی تاخیر بھی اسے مشکوک بلکہ ناقابل قبول بنا دینے کے لئے کافی ہے، اگرچہ درمیان کے ناقلین اور