کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 323
کے حلق میں ٹھونسنے کے لئے اپنے ’سرمایۂ تحقیقات‘ کی حیثیت سے اس کی نمائش کرتے پھر رہے ہیں ۔ خیر جناب! ’سازشی ٹولے‘ نے پہلی صدی میں اپنی ’سازش‘کا آغاز کیا اور تیسری صدی کے اخیر تک مکمل کرلیا۔ کسی کوکانوں کان خبر نہ ہوئی۔ اب ہزار برس بعد یعنی اب سے کوئی اَسی برس پہلے آپ حضرات کے ہوش و حواس نے انگڑائی لی اور یہودی و صلیبی مستشرقین کی خرد بین لگا کر آپ حضرات نے یہ انکشاف کیا کہ یہ اُمت تو اپنے آغاز سے اب تک ’ایرانی سازش‘ کا شکار ہے۔ یہ انکشاف بڑی دیر سے ہوسکا۔اب یہ آؤٹ آف ڈیٹ ہوچکا ہے۔ اس کی حیثیت مشت بعد از جنگ کی ہے۔ اس لئے اسے شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کے مشورہ کے مطابق آپ اپنے ہی کلے پر مار لیجئے۔ اتنی دیر کے بعد ایسے فوجداری مقدمات کی تفتیش نہیں ہوسکتی اور نہ کوئی دانشمند اس موضوع پر سوچنے کی کوشش کرسکتا ہے!! روایتوں کے متفرق اور متضاد ہونے کی حقیقت آپ نے روایتوں کو متفرق اور متضاد لکھا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی غیر مسلم آپ سے یہ سوال کربیٹھے کہ آپ کا قرآن ابتداء متفرق تھا یا مجتمع؟ اور اگر مجتمع تھا تو کس لوح پر، وہ لوح کہاں ہے؟ اسے کس نے دیکھا ہے؟ اور اس بات کی شہادت کیا ہے کہ انہوں نے دیکھا ہے؟ پھر یہ شاہدین قابل اعتبار تھے بھی یا نہیں ؟ انہوں نے اپنی شہادت کن کن لوگوں کے سامنے اَدا کی؟ پھر ان لوگوں کی حیثیت کیا تھی؟ وھلم جرّا، اگر آپ کے سامنے ایسے سوالات پیش کردیئے جائیں تو آپ کیا جواب دیں گے؟ حدیث تو خیر ’فلاں نے فلاں سے اور فلاں نے فلاں سے‘ کے واسطے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ بھی جاتی ہے۔ مگر آپ لوحِ قرآن کے لئے تو اتنا بھی ثبوت فراہم نہیں کرسکتے۔ باقی رہا تضاد کا معاملہ تو یہ محض ایک ’ہوا‘ ہے جس کی کوئی اصلیت نہیں ۔ صحیح احادیث میں کوئی تضاد نہیں ۔ ظاہر بینی کے لحاظ سے اگر آپ حضرات نے کچھ مثالیں فراہم کرلی ہیں تو ایسی مثالیں قرآن کے نہ ماننے والوں نے خود قرآن سے فراہم کی ہیں تو کیا آپ تسلیم کرلیں گے کہ (نعوذ باللہ) قرآن میں بھی تضاد ہے؟ پھر آپ حضرات اپنی ’تدبر فی القرآن‘کی مخصوص صلاحیت کوبروے کارلاتے ہوئے قرآنی آیات کا جیسا کچھ مفہوم سمجھتے ہیں ، ان کے لحاظ سے تو قرآن مجید تضاد سے بھرا نظر آئے گا۔ مثال دیکھنی ہو تو پچھلے اوراق پلٹ لیجئے (اور اگلے صفحات میں بھی ملاحظہ فرمایئے گا) ظن کی بحث میں آپ کی پیش کردہ جن قرآنی آیات پر ہم نے بحث کی ہے، وہ سب کی سب آپ کے بتلائے ہوئے مفہوم کے اعتبار سے خود قرآن ہی کی دوسری آیات سے ٹکرا رہی ہیں۔