کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 322
احترام سے خزانوں کے دروازے کھلتے ہیں ۔ تھیلیاں باادب پیش ہوتی ہیں ، اور ’سازشی‘ ہیں کہ نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتے۔
بادشاہ عرض کرتے ہیں تشریف لے چلئے، آنکھیں فرشِ راہ ہوں گی، فارسی سازش کے سرغنہ یا فن حدیث کے سالارِ قافلہ فرماتے ہیں : ’’والمدينة خيرلهم لو کانوا يعلمون‘‘ مطلب یہ کہ اس بڑے دربار سے علیحدگی میرے لئے ناممکن ہے۔
پھر سازشیوں کا یہ پورا گروہ مختلف عجمی ممالک سے ہزاروں میل سفر طے کرکے مدینہ منورہ پہنچ کر امام کی خدمت میں تحصیل علم کے لئے پیش ہوتا ہے اور کوئی سوچتا نہیں کہ شیخ عرب ہے، یہ عجمی النسل کہیں پوری سازش کا راز فاش نہ کردے۔
عرب استاد کے عجمی شاگرد مدتوں استفادہ کرتے ہیں اور انہیں علوم کا درس ہوتا ہے۔ ساتھی ساتھی پر جرح کرتا ہے۔ایک دوسرے کی کمزوریوں کے کھلے بندوں تذکرے ہوتے ہیں ۔ عرب محدثین عجمی علما پرتنقید کرتے ہیں ، عجمی اہل عرب کے نقائص کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ لیکن اس سازش کا سراغ جس کے اختراع کا سہرا ’طلوعِ اسلام‘ کے دفتر پر ہے، نہ کسی عرب کو لگا، نہ کسی عجمی کو۔ نہ استا د نے اسے محسوس کیا نہ شاگرد نے نہ ساتھی نے!!
پھر تعجب یہ ہے کہ فارس کی فتح پہلی صدی کے اوائل میں ہوئی اور اس سازش کا منصوبہ تیسری صدی میں بنایا گیا۔ تقریبا پورے دو سو سال فارسی بے وقوف آرام کی نیند سوتے رہے۔ یعنی جب شکست کا درد اور کوفت تازہ تھی، اس وقت تو فارسیوں کو کوئی احساس نہ ہوا۔ لیکن تین سو سال کے بعد درد کی بے قراریاں انگڑئیاں لینے لگیں اور فارسی سازشیوں نے بخاری /مسلم اور کتب ِصحاح کی صورت اختیار کرلی۔ فيا للعقول وأربابها
پھر اتنی بڑی سازش جس نے اسلامی اور تعلیمی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، دنیا کے مسلم اور غیرمسلم مؤرخوں کی آنکھیں بے کار ہوگئیں ، قلم ٹوٹ گئے اور زبانیں گنگ؟… ان کی ضخیم کتابیں اس عظیم الشان سازش کے تذکرے سے یکسر خالی ہیں ۔ یہ راز سب سے پہلے یورپ کے ملحد مُکتشفین پرکھلا اور اس کے بعد دفتر طلوعِ اسلام کے دریوزہ گروں نے کچھ ہڈیاں مستعار لے لیں ۔ ﴿ فَوَيْلٌّ لَّهُمْ مِمَّا کَتَبَتْ اَيْدِيْهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُمْ مِمَّا يَکْسِبُوْنَ﴾
(حدیث کی تشریعی اہمیت: ص ۴۲ تا ۴۹)
ہماری ان گذارشات سے واضح ہوگیا کہ ایرانی سازش کا جو شاخسانہ آپ کے رہنماؤں نے چھوڑا ہے وہ کوئی ’ٹھوس حقیقت‘ نہیں بلکہ ایک ’بدبودار افسانہ‘ ہے۔ جس نے اسلام کے دانا دشمن یہودی مستشرق گولڈ زیہر اور اس کے رفقا کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور حافظ اسلم، مسٹر پرویز اور پاکستان کے کچھ بے علم یا محدود العلم کلرکوں کی گود میں پل کر جوان ہوا ہے۔ اور اب آپ جیسے ’محقق‘ حضرات اسے عام مسلمانوں