کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 321
اسلام کا موقف عقیدۂ توحید کے معاملے میں کھلی کتاب تھا۔ وہ دوسروں کے شبہات اور اعتراضات بڑی کشادہ دلی سے سنتا تھا۔ مخالفین کے شبہات کی تردید اور اصلاح میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا تھا۔ نہ ہی اپنے نظریہ کو کسی پر جبراً ٹھونستا تھا، پھر اس کے خلاف کیوں سازش کی جائے… کون کرے؟ اور کس طرح کرے؟ فارسی حکومت کا چراغ خلیفہ ثانی کی حکومت میں گل ہوا۔ یزد گرد کو خود اس کی رعایا نے قتل کیا اور اس کے خاتمہ میں مسلم عساکر کی مدد کی۔ پھر سازش کی ضرورت کیسے ہوئی؟ فارس کی فتح کے بعد ہزاروں فارسی اپنے آبائی مذہب پر قائم رہے۔ جزیہ دیتے رہے، انہیں کسی نے بھی کچھ نہیں کہا۔ ان کے معبد (آتش کدے) مدتوں قائم رہے۔ جو لوگ ان سے اسلام کی طرف راغب ہوئے انہیں اسلام نے پوری ہمدردی کے ساتھ اپنی آغوش میں عزت کی جگہ دی۔ جہاں مذہب یوں آزاد ہو اور سیاست اس طرح بے اثر، ملک کے عوام مسلمانوں کی فتوحات پر خوشیاں مناتے ہوں ، جب وہ جنگی مصالح کی بنا پر کسی مقام سے پیچھے ہٹنا پسند کریں تو اس علاقہ میں صف ماتم بچھ جائے۔ تعجب ہوتا ہے کہ ادارۂ طلوعِ اسلام اور جناب اسلم جیراجپوری نے سازش کے جراثیم کو کون سی عینک سے دیکھ لیا!! تاریخ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی عدل گستری اور انصاف پسندی کی وجہ سے فارسی بالکل مطمئن ہوگئے تھے۔ فاتحین کی علم دوستی کے اثرات سے فارس کے تمام ذہین لوگ سیاست چھوڑ کر فوراً علم کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اس راہ میں انہوں نے آخرت کی سربلندیوں کے علاوہ علمی دنیا میں بہت بڑا نام پیدا کیا، اور حکومت کے خلاف سازش کا ان کی زبان پر کبھی نام تک نہیں آیا۔یہ سازش کا پورا کیس مولانا جیراجپوری کے کاشانہ اور ادارۂ طلوع اسلام کے دفتر میں تیار ہوا ہے۔ واقعات کی روشنی میں اسے ثابت کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ سازش کی یہ عجیب قسم ہے کہ سازشیوں نے فاتحین کا مذہب قبول کیا۔ پھر ان کے علوم کی اس قدر خدمت کی کہ فاتحین اپنے علوم کی حفاظت سے بے فکر اور کلی طور پر مطمئن ہوگئے۔ پھر فاتحین نے ان میں سے اکثر علوم اور علما کی سرپرستی کی۔ (مقدمہ ابن خلدون:۵۸) معلوم ہے کہ اُموی خلفاء کے وقت شاہی درباروں میں عجمیوں کو وہ اقتدار حاصل نہ تھا جو عباسی درباروں میں برامکہ کوحاصل ہوا۔ لیکن اُن کا دامن دین کی خدمات سے بالکل خالی تھا۔ قرآن وسنت اور دینی علوم تو بڑی بات ہے، برامکہ سے تو عربی زبان کی بھی کوئی خدمت نہ ہوسکی۔ ہارون الرشید نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے درس کی سرپرستی کی کوشش کی، لیکن امام مالک نے اسے بے اعتنائی سے مسترد کردیا، روپیہ دینے کی کوشش کی تو پورے استغنا سے واپس کردیا۔ سازش کا آخر یہ مقصد ہوسکتا تھا کہ شاہی دربار تک رسائی ہو، مال و دولت اور حکومت میں حصہ ملے، اب دربار خود درِ دولت پر حاضر ہوتا ہے، اپنی ساری بلندیاں چھوڑ کر پورے انکسار، انتہائی