کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 320
غزالی، ابن مکرم، ابن عربی ، ابن العربی، شاطبی، ابن حزم، یحییٰ بن یحییٰ مصمودی وغیرہم، قرطبہ اور اندلس کے علما کو سازشی نہیں کہا جاتا۔ اگر خراسان، بخارا، قزوین، ترمذ، نساء کے علما پرحدیث سازی کی تہمت اس لئے لگائی گئی ہے کہ ان بزرگوں نے سنت کے پرانے تذکروں ، صحابہ اور تابعین کی بیاضوں اور سلف اُمت کے مسودات سے تدوین حدیث کے لئے راہیں ہموار کیں تو علمائے اندلس نے بھی سنت کی کچھ کم خدمت نہیں کی کہ شروحِ حدیث، فقہ الحدیث اور علومِ سنت کی خدمت میں ان بزرگوں نے لاکھوں صفحات لکھ ڈالے۔ ان خدمات کو کیوں سازش نہیں کہا گیا۔ منکرین سنت کے پورے خاندان میں کوئی عقلمند نہیں جو ان حقائق پر سنجیدگی سے غور کرے، کیا علومِ دینی اور فنونِ نبوت کی ساری داستان میں آپ کو صرف علمائے فارس ہی مجرم نظر آئے!! من کان هذا القدر مبلغ علمه فليستتر بالصمت والکتمان‘‘ (حدیث کی تشریعی اہمیت از مولانا محمد اسمٰعیل سلفی: رحمۃ اللہ علیہ ص ۶۹تا ۷۱) آئیے اس’ایرانی سازش‘ کے متعلق مولانا موصوف کے بعض اور تبصرے ملاحظہ فرماتے چلئے۔ مولانا موصوف لکھتے ہیں : ’’آ ج سے تقریباً ایک صدی پہلے حکومت نہ انتخابی تھی؛ نہ جمہوری نمائندگی کی سند ان کو حاصل تھی۔ نہ وہ حکومتیں عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی تھیں بلکہ اس وقت کی حکومتیں شخصی ہوتی تھیں یا زیادہ سے زیادہ کوئی قوم حاکم ہوجاتی، باقی لوگ محکوم ہوتے تھے۔ اقتدار میں عوام کی جوابدہی قطعاً ملحوظ نہیں رکھی جاتی تھی۔ نہ حکومت کسی آئین کی پابند ہوتی تھی۔ بادشاہ کی رائے اور بادشاہ کا قلم پورا آئین ہوتا تھا۔ یا وہ لوگ جو بادشاہ کی ہاں میں ہاں ملا کر حکومت کے منظورِ نظر ہوجائیں ۔ ایسی حکومتوں کے ساتھ ہمدردی ذاتی ضرورتوں کی وجہ سے ہوتی تھی۔ یا بادشاہ کے ذاتی ا خلاق اور کریکٹر کی وجہ سے۔ اگر کوئی انقلاب ہوجائے تو انقلاب سے ملک متاثر تو ہوتا تھا لیکن اس کی وجہ بادشاہ یا اس کے خاندان کے ساتھ ہمدردی نہیں ہوتی تھی، بلکہ یہ تاثر آنے جانے والی حکومتوں کے مقاصد کی وجہ سے ہوتا۔ فارسی حکومت شخصی تھی۔ یزدگرد کی موت پراس کا خاتمہ ہوگیا۔یزدگرد کا خاندان یقینا اس انقلاب میں پامال ہوا ہوگا۔ لیکن تاریخ اس وقت کسی ایسی سازش کا پتہ نہیں دیتی جو اس خاندان کے ساتھ ہمدردی کے طور پر کی گئی ہو۔نوشیرواں کے بعد ویسے بھی کسریٰ کی حکومت روبہ انحطاط تھی، ان کے کردار میں عدل و انصاف کے بجائے استبداد روز بروز بڑھ رہا تھا۔ عوام کو حکومت کے ساتھ کوئی دلچسپی اور محبت نہیں تھی۔ پھر سازش کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ مذہبا ً فارسی حکومت آتش پرست تھی۔ اسلام نے توحید کے عقیدہ کی سادگی سے یہودیت اور عیسائیت تک کو متاثر کیا۔ بت پرستی ان کے سامنے نہ ٹھہر سکی، آتش پرستی کی وہاں کیا مجال تھی۔ اسلام کی تعلیمات اس مسئلہ میں نہایت مدلل اور واضح تھیں ، ان میں کوئی چیز ڈھکی چھپی نہ تھی۔