کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 316
سرپرست عربی خلیفہ تھا اور جس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ایسی ایسی نمایاں ترین عربی شخصیتوں نے اپنی زندگیاں کھپا دیں ۔ جن میں سے بعض بعض افراد کے قبیلوں کی ایران دشمنی چار دانگ عالم میں معروف تھی؟ کیا کوئی انسان جس کا دماغی توازن صحیح ہو، ایک لمحہ کے لئے بھی ایسے بدبودار افسانہ کو ماننے کے لئے تیار ہوسکتا ہے؟ دو رِ اوّل کے بعدآئیے دورِ ثانی کے جامعین ِحدیث پر نگاہ ڈالیں ۔ ان میں سرفہرست امام بخاری ہیں جن کا مسکن ’بخارا‘ تھا۔ بخارا ایران میں نہیں بلکہ ماوراء النہر (ترکستان) میں واقع ہے۔ دوسرے اور تیسرے بزرگ امام مسلم اور امام نسائی ہیں ۔ان دونوں حضرات کا تعلق نیشا پور کے علاقے سے تھا اور نیشاپور ایران کا نہیں بلکہ خراسان کا جز تھا۔ اگر اس پر ایران کا اقتدار رہا بھی ہے تو اجنبی اقتدار کی حیثیت سے۔ چوتھے اور پانچویں بزرگ امام ابوداؤد اور امام ترمذی تھے۔ اول الذکر کا تعلق سجستان (خراسان) سے، ثانی الذکر کا تعلق ترمذ (ماوراء النہر، ترکستان) سے رہا ہے۔ چھٹے بزرگ کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک طبقہ ابن ماجہ کی سنن کو صحاحِ ستہ میں شمار کرکے انہیں استناد کا یہ مقام دیتا ہے، دوسرا طبقہ سنن دارمی یا مؤطا امام مالک کو صحاحِ ستہ میں شمار کرتا ہے۔ امام ابن ماجہ یقینا ایرانی ہیں لیکن ان کی تصنیف سب سے نیچے درجے کی ہیں ۔ حتیٰ کہ ا کثر محدثین اسے لائق استناد ماننے کو تیا رنہیں ۔ آخر الذکر دونوں حضرات عربی ہیں ۔ امام مسلم، ترمذی، ابوداؤد اور نسائی بھی عربی ہیں ۔ کیا محدثین عجمی تھے؟ یہ حقیقت اچھی طرح یاد رہے کہ جن محدثین نے احادیث کو کتابی شکل میں جمع کیا ہے، ان سب کو یا ان کی اکثریت کو عجمی قرار دینا محض فریب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج حدیث کی جو کتابیں اُمت میں رائج، مقبول اور متداول ہیں ، چند ایک کے سوا، سب کے مصنّفین [مؤلفین] عرب تھے۔ ہم ذیل میں اس طرح کے عرب محدثین کی فہرست دے رہے ہیں تاکہ واقعی حقیقت دو ٹوک طور پر واشگاف ہوجائے : عرب محدثین قبیلہ ۱۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ۱۷۹ھ ذی اصبح ۲۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ۲۰۴ھ قریش ۳۔امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ ۲۱۹ھ قریش ۴۔ امام اسحق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ ۲۳۸ھ بنوتمیم ۵۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ۲۴۱ھ بنو شیبان