کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 314
القرآن اور تفقہ في الدین کا طائر پندار حقائق کی دنیا سے بہت دور پرواز کرگیا ہے۔ روایت بالمعنی اب آئیے! آپ کے چند اور ’فرموداتِ عالیہ‘ پر گفتگو ہوجائے، آپ نے حدیثوں کی بابت لکھا ہے کہ ’’یہ سب کی سب یکسر ظنی، غیر یقینی اور روایت بالمعنی ہیں ۔‘‘ یہ معلوم ہی ہے کہ ’غیریقینی‘ کا لفظ ’ظنی‘ کی تفسیر ہے اور ظن کے سلسلے میں میں اپنی گذارشات پیش کرچکا ہوں ۔ رہا ’روایت بالمعنی‘ کا معاملہ تو سن لیجئے کہ روایت بالمعنی اگر کوئی جرم ہے تو اس جرم کا سب سے بڑا مجرم (نعوذ باللہ) خود قرآن ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا مکالمہ، ہود علیہ السلام اور ان کی قوم کا مکالمہ، صالح علیہ السلام اور قومِ ثمود علیہ السلام کا مکالمہ، ابراہیم اور لوط علیہما السلام اور ان کی قوم کا مکالمہ، حضرت شعیب علیہ السلام اور اہل مدین و اصحاب الایکہ کا مکالمہ، حضرت موسیٰ کا فرعون سے، بلکہ جادوگروں سے اور بنی اسرائیل سے مکالمہ، اور حضرت عیسیٰ کے مواعظ و مکالمے، کیا یہ سب انہی الفاظ اور عبارتوں میں تھے، جن الفاظ اور عبارتوں کے ساتھ قرآن میں درج ہیں ؟ کیا آپ اس تاریخی حقیقت کا انکار کرسکتے ہیں کہ ان پیغمبروں اور ان کی قوموں کی زبان عربی نہیں تھی…!!؟ قرآن میں ایک ہی بات کہیں کچھ الفاظ و عبارت میں ادا کی گئی ہے تو کہیں دوسرے الفاظ و عبارت میں ۔ کہیں مختصر ہے کہیں مطو ل، بلکہ کہیں ایک جز مذکور ہے تو کہیں دوسرا جز۔ پس اگر ایک بات کے بیان کرنے میں الفاظ و عبارت، اجمال و تفصیل اور اجزائِ گفتگو کے ذکر و عدمِ ذکر کا اختلاف اور روایت بالمعنی کوئی عیب ہے تو سب سے پہلے قرآن مجید کو اس عیب سے (نعوذ باللہ) پاک کیجئے۔ اور اگر نہیں تو پھر حدیث کے روایت بالمعنی ہونے پر آپ کو اعتراض کیا ہے؟ آخر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ قرآن تو روایت بالمعنی سے بھرا ہوا ہے، پھر بھی یقینی کا یقینی اور احادیث کے متعلق جوں ہی آپ کے کان میں یہ آواز پہنچے کہ اس میں کچھ احادیث روایت بالمعنی بھی ہیں ، بس آپ شور مچانے لگیں کہ ہٹاؤ ان احادیث کو، یہ روایت بالمعنی کی گئی ہیں ۔ ان کا کیا اعتبار، اور دین سے ان کا کیا تعلق…؟ ایرانی سازش کا بدبودار افسانہ قرآنی آیات کو آپ نے اپنی مزعومہ خرافات کے گرد طواف کرنے کے بعد اس بڑے بول کا اظہار کیا جسے منکرین حدیث کے گرگانِ باراں دیدہ اپنے سردو گرم چشیدہ یہودی صلیبی مستشرق اساتذہ کی تقلید میں بولتے آئے ہیں اور جس کے متعلق ہرصاحب ِبصیرت بے کھٹک کہہ سکتا ہے کہ ﴿کَبُرَتْ کَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ اِنْ يَّقُوْلُوْنَ اِلاَّ کَذِبًا﴾ (الکہف:۵) ’’بڑا بول ہے جوان کے منہ سے نکل رہا ہے، وہ سراپا جھوٹ بک رہے ہیں ۔‘‘ اِن کے اِس بول کا خلاصہ یہ ہے کہ احادیث کا ذخیرہ درحقیقت