کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 312
کہئے جنابِ عالی! اس قسم کی گواہی ’یقینیات‘ کے کس درجہ سے تعلق رکھتی ہے؟ اور یہ ڈھیل تو رہی نظامِ عدالت کے سلسلے میں ، باقی رہیں خبریں تو ان کے سلسلے میں اس سے بھی زیادہ وسعت اور گنجائش رکھی گئی ہے۔ حکم دیا گیا : ( يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا إنْ جآءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاءٍ فَتَبَيَّنُوْا)(الحجرات: ۶) ’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق آدمی کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلو… الخ‘‘ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی صاحب تقویٰ اور صالح آدمی خبر لائے تو تحقیق بھی کرنے کی ضرورت نہیں ۔
جنابِ محترم! جب قرآن میں نہ صرف ظن کی تعریف کی گئی ہو بلکہ اس پر دین کے بعض احکامات کا دارومدار رکھا گیا ہو، اسی پر پورے نظامِ عدالت کی بنیاد رکھی گئی ہو، اسی ظن کی بنیاد پر فیصلہ کن رائے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہو، اسی ظن کے تحت توبہ و استغفار کرنے والوں کی بخشش کی گئی ہو حتیٰ کہ اسے آخرت میں نجات کا سبب قرار دیا گیا ہو تو آپ کو یہ بات کہاں تک زیب دیتی ہے کہ آپ احادیث پر ’ظنی‘ ہونے کی پھبتی چست کریں ۔ آپ دوسروں کو تفقہ فی الدین اور تدبر فی القرآن سے محروم قرار دیتے ہیں ، دراں حالے کہ اس محرومی کے شکار درحقیقت آپ خود ہیں ۔ محترم کہنا پڑتا ہے کہ ایاز قدر خود بشناش
شاید آپ اس موقع پر لغت کھول کر بیٹھ جائیں اور چیخنا چلانا شروع کردیں کہ دیکھو یہ شخص ’ظن‘ کے مختلف معانی کو ایک د وسرے کے ساتھ گڈ مڈ کررہا ہے۔اس لئے میں آپ کی اس چیخ پکار سے پہلے ہی یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ کارِخیر میں نہیں ، آپ انجام دے رہے ہیں ۔ آخر اس سے بڑھ کر دھاندلی اور زبردستی کیا ہوسکتی ہے کہ آپ قرآن کی ان تمام آیات اور اسلام کے اس سارے نظام کو پس پشت ڈال دیں جن میں ’ظن‘ کو دین اسلام کا جزوِلاینفک قرار دیا گیا ہے اور قرآن کی دو تین آیتوں کو پیش کرکے لفظ ’ظن‘ کے مفہوم کو غلط رنگ دیتے ہوئے یہ فیصلہ ٹھونک دیں کہ ’ظن‘ کے لئے دین میں کوئی گنجائش نہیں ۔ اس لئے ذخیرۂ احادیث جو یکسر ظنی اور غیر یقینی ہے، اس کا دین میں کوئی مقام نہیں ۔ بتائیے ! ہم نے جو آیات پیش کی ہیں ،ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ کے اس فیصلے پراس کے سوا کیا کہا جائے کہ ؎
آں کس کہ نداندو بداند کہ بداند درجہل مرکب ابدالدہر بماند
دین کے مکمل ہونے کا مطلب
حدیث کے بے حیثیت اور بے مقام ہونے کے سلسلے میں آپ کی دوسری دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ
دین عملاً محمد رسول اللَّہ والذین معہ کے ذریعہ مکمل ہوچکا ہے۔ اور قولاً لوحِ قرآن میں محفوظ ہوگیا ہے۔
غالباً آپ کے اس ’فنکارانہ‘ استدلال کا منشا یہ ہے کہ اگر آپ سے یہ سوال کردیا جائے کہ محمد رسول اللَّہ والذین معہ کے ذریعہ عملاً جو دین مکمل ہوچکا ہے، اس کی تفصیلات کہاں دستیاب ہوں گی