کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 311
ہے، ارشاد ہے: ﴿ فَإنْ طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا اَنْ يَتَرَاجَعَا إنْ ظَنَّا أنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ﴾ یعنی ’’مطلقہ ثلاثہ کا دوسرا شوہر اگر طلاق دے دے تو (پہلے شوہر اور اس کی مطلقہ) ان دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ آپس میں تراجع کرلیں (یعنی پھر بذریعہ نکاح اکٹھے ہوجائیں ) اگر یہ ظن کریں کہ وہ دونوں اللہ کے حدود قائم کرسکیں گے۔‘‘ (البقرۃ: ۲۳۰ ) غزوۂ تبوک میں جو تین مؤمنین خالصین بلا عذر شریک نہ ہوئے تھے، ان کی توبہ بھی جس مرحلے کے بعد قبول کی گئی، اس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ کے ساتھ آیا ہے: ﴿ وَعَلَی الثَّلَاثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا حَتّٰی اِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الاَرْضُ بِمَا رَحُبَتَْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوْا اَنْ لاَّ مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ إلاَّ إلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوْبُوْا إنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ﴾ (التوبہ:۱۱۸) ’’اور اللہ نے ان تین افراد کی توبہ بھی قبول کی جنہیں پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا یہاں تک کہ جب ان پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوگئی اور ان کی جان پر بن آئی اور انہوں نے یہ ظن قائم کرلیا کہ اللہ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں ۔ پھر اللہ نے ان پر رجوع کیا تاکہ وہ توبہ کریں ۔ بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا رحیم ہے۔‘‘ لیجئے جناب! کتنی صاف بات ہے کہ جب ان پیچھے رہ جانے والوں نے حالات کی سختی کا مزا چکھ لیا اور یہ ’ظن‘ قائم کرلیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی جائے پناہ نہیں تو اللہ نے ان کی توجہ قبول کرلی۔ یعنی انہیں اللہ کی رحمت و مغفرت ان کے اسی ظن کے نتیجہ میں حاصل ہوئی۔ یہ تو یہ؛ اسلام نے اسلامی عدالت کے تمام فیصلوں کی بنیاد صرف دو عادل گواہوں پر رکھی ہے، اس سے صرف زنا کا کیس مستثنیٰ ہے۔ لیکن ان دو عادل گواہوں کی عدالت و ثقاہت کس درجہ کی ہوگی، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر وہ نماز کے بعد اللہ کی قسم اور اپنے ا خلاص کا واسطہ دے کر گواہی دے رہے ہوں ، تب بھی قرآن نے ان کے بارے میں اس احتمال کو قبول کیا ہے کہ وہ جان بوجھ کر غلط بیانی سے کام لے سکتے ہیں ۔ ملاحظہ ہو سورۂ مائدہ : ۱۰۶ تا ۱۰۸ بلکہ گواہی کے سلسلے میں مزید ایک قانونی شق یہ رکھی ہے کہ اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کافی ہوگی ( البقرۃ:۲۸۳) …اور خو د ہی یہ بھی بتلا دیا ہے کہ عورتوں کی تعداد ایک کے بجائے دو اس لئے رکھی جارہی ہے کہ﴿ اَنْ تَضِلَّ اِحْدَاهُمَا فَتُذَکِّرَ إحْدَاهُمَا الاُخْرٰی﴾ (البقرۃ: ۲۸۲) ’’اگر ایک عورت معاملہ کوبھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔‘‘ یعنی ایسی گواہی بھی قبول کی جائے گی جو خود گواہی دینے والے کو یاد نہیں ہے۔ بلکہ گواہی دینے والا انسان دوسرے کی یاد دہانی کی بنیاد پر گواہی دے رہا ہے۔