کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 310
مُّبِيْنٌ) (النور:۱۲)
’’جب تم لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام کے واقعہ کو سنا تو مؤمن مردوں اور مؤمنہ عورتوں نے اپنے نفسوں کے ساتھ اچھا ظن کیوں نہ قائم کیا؟ اور کیوں نہ کہا کہ یہ کھلی ہوئی جھوٹی تہمت ہے۔ ‘‘
غور فرمائیے! اس میں صرف ’ظن‘کو اختیار ہی کرنے کا مطالبہ نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد پر ایک معاملہ کے بارے میں فیصلہ کن رائے قائم کرنے کا بھی مطالبہ ہے۔ ایک جگہ فرمایا گیا:
﴿ وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ وَاِنَّهَا لَکَبِيْرَهٌ إلاَّ عَلَی الْخٰشِعِيْنَ اَلَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَاَنَّهُمْ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ﴾ (البقرۃ:۴۵،۴۶)
’’صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو اور بے شک یہ بھاری ہے مگر ان ڈرنے والوں پرجو یہ ’ظن‘ رکھتے ہیں کہ انہیں اپنے ربّ سے ملنا ہے اور یہ کہ وہ اسی کی طرف پلٹ کر جائیں گے۔‘‘
گویا قیامت کے وقوع اور اللہ سے ملاقات کا ’ظن‘ رکھنا ایمان کی علامت ہے۔ ایک اور مقام پرارشاد ہے :
﴿ اَلاَ يَظُنُّ أوْلٰئِکَ أنَّهُمْ مَبْعُوْثُوْنَ، لِيَوْمٍ عَظِيْمٍ﴾ (المطفّفین:۴،۵)
’’کیا وہ لوگ ظن نہیں رکھتے کہ وہ ایک بڑے دن کے لئے اٹھائے جائیں گے؟‘‘
گویا بعث کا ظن نہ رکھنا عدمِ ایمان کی علامت ہے اور ڈنڈی مارنے جیسی برائیوں کا سبب ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے:
﴿ فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَه بِيَمِيْنِهِ فَيَقُوْلُ هٰآؤمُ اقْرَءُ وْا کِتٰبِيَه إنِّی ظَنَنْتُ أنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِيَه …الخ﴾ (الحاقہ: ۱۹ تا ۲۲)
’’ قیامت کے دن جس شخص کی کتاب اس کے دائیں ہاتھ میں دی جائے گی، وہ کہے گا: آؤ میری کتاب پڑھو۔ میں ظن رکھتا تھا کہ میں اپنے حساب سے ملوں گا۔ پھر وہ پسندیدہ زندگی یعنی بلند وبالاجنت میں ہوگا۔‘‘
لیجئے جناب! یہاں ایک ’ظنی‘ عقیدے پرجنت مل رہی ہے اور آپ ظن اور ظنیات کو جہنم میں دھکیلنے پرتلے بیٹھے ہیں ۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے ظن کی بنیادپر توبہ و استغفار کیا تو ان کے اس عمل کو مدح وتعریف کے سیاق میں ذکر کیا گیا ہے، ارشاد ہے:
(وَظَنَّ دَاودُ اَنَّمَا فَتَنّٰه فَاسْتَغْفَرَ رَبَّه وَخَرَّ رَاکِعًا وَّأنَابَ)( ص ٓ: ۲۴)
’’داؤد نے یہ ظن کیا کہ ہم نے اسے آزمائش میں ڈال دیا ہے پس انہوں نے اپنے ربّ سے مغفرت مانگی اور رکوع کرتے ہوئے گر پڑے اور اللہ کی طرف جھک گئے۔‘‘
آپ ظنی چیزکا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں سمجھتے اور قرآن ظن پر دین کے ایک حکم کادارو مدار رکھتا