کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 309
آپ علیہ السلام کے رفیق وہم جلیس رہ چکے تھے) اگر محض اس لئے قابل اعتنا نہیں سمجھا جاسکتا کہ یہ کام حضرت مسیح کی موجودگی میں نہیں بلکہ واقعہ رفع کے چالیس سال بعد انجام پایا تھا تو یہ روایتیں جنہیں نہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قلمبند کروایا نہ ہی آپ کے اصحاب میں سے کسی نے اس کی ضرورت سمجھی۔ بلکہ حضور کے سینکڑوں سال بعد بعض عجمیوں نے زید، عمروو بکر سے پوچھ پوچھ کر لکھ لیا ہو، انہیں منزل من اللہ ماننے اور جزوِ دین قرار دینے کے لئے وجہ جواز کیا ہوسکتی ہے؟ اور یہ تدوین و ترتیب کے دوران تقویٰ و طہارت کا اہتمام یعنی ایک ایک روایت کو قلم بند کرنے سے پہلے تازہ غسل و وضو اور دو رکعت نفل ادا کرنے کا شاخسانہ نفسیاتی اعتبار سے ذہنوں میں روایتوں کی تقدیس و تکریم کا جذبہ خواہ کتنا ہی پیدا کرے لیکن نفس روایات کا جہاں تک تعلق ہے، یہ حقیقت ہے کہ اگر انہیں آبِ زمزم سے بھی غسل و وضو کرکے لکھا گیا ہوتا تو بھی اس عمل سے ان کی صحت و سقم میں کوئی فرق نہیں آتا۔‘‘ قرآن اللہ کا کلام ہے، اس کا یقین کرنے کے لئے ہمیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانا ہوگا، بغیر آپ پر ایمان لائے قرآن کے کلام اللہ ہونے پر ہمارا ایمان لانا کسی درجہ میں معتبر نہ ہوگا۔ بعینہٖ اسی طرح روایتوں کو حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ماننے کے لئے ایک ایک روایت کے راوی پر ایمان لانا ہمارے لئے ناگزیر ہوگا بلکہ ہر روایت کے ہر سلسلہ اسناد میں جتنے راوی ہوں گے ہرایک پر بلا استثنا ایمان لاناہوگا۔ کیا ہمیں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اِن اَن گنت اصحابِ اسماء الرجال پر ایمان لانے کی تکلیف دی گئی ہے۔ اناللَّہ …‘‘ جواب مدھو پوری ’محقق‘ صاحب کا ’سرمایۂ تحقیقات‘ ختم ہوا۔ اب آئیے اس پر ہمارا تبصرہ اور جائزہ ملاحظہ فرمائیے۔ ہم نے اس کے جواب میں انہیں لکھا تھا کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ دین میں حدیث کا کوئی مقام نہیں اور اس دعویٰ کی آپ نے اپنے خیال میں دو دلیلیں لکھی ہیں ۔ دوسری دلیل پر تو ہم آگے گفتگو کریں گے۔پہلی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ دین کی بنا علم و یقین پر ہے، احادیث ظنی ہیں ۔ اس ضمن میں آپ نے وہ آیات نقل کی ہیں جن میں ظن کی مذمت کی گئی ہے۔ اور ظن سے بچنے کا حکم دیا گیاہے۔ آپ کی یہ حرکت دیکھ کر بے ساختہ کہنا پڑتا ہے کہ آپ حضرات نہ تو قرآن کو مانتے ہیں اور نہ اس کو سمجھنے کا سلیقہ ہی رکھتے ہیں !! شریعت میں ظنّ اور ظنّیات کی حیثیت جنابِ عالی! قرآنِ مجید میں صرف ظن کی مذمت ہی نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کی تعریف بھی کی گئی ہے۔ اسے اختیار کرنے کا حکم بھی دیاگیا ہے اور اسے مدار نجات بھی قرار دیا گیا ہے۔ سنئے، فرمایا گیا ہے: (لَوْلاَ إذْ سَمِعْتُمُوْہ ظَنَّ الْمُؤمِنُوْنَ وَالْمُؤمِنَاتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوْا هٰذَا إفْکٌ