کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 308
چپکانے کے بعد انہیں ’فلاں نے فلاں سے کہا‘ اور ’فلاں نے فلاں سے سنا‘… روایتوں کوبدقسمتی سے دین کی اصل واساس سمجھ لیا گیا، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ مجموعہ ہائے روایات زیادہ سے زیادہ ایک طرح کے نیم تاریخی مواد کی حیثیت رکھتے ہیں اور بس۔ نیم تاریخی ہم نے اس لئے کہا کہ اولاً یہ فن ِتاریخ کے معیار پرپورے نہیں اُترتے، اور دوسرے یہ کہ ان کتب احادیث کی اکثر روایات قصہ گویوں ، واعظوں اور داستان سراؤں کی خود ساختہ روایات اور من گھڑت کہانیاں ہیں ۔ نیز ان جھوٹی روایات اور فرضی واقعات کا عوام میں خوب خوب پرچار کرنے کے ذمہ دار بھی یہی وعاظ و قصاص کا گروہ رہا ہے۔ ہماری’حدیث‘ کا ایک دوسرا تاریک پہلوبھی ہے جو پہلے سے زیادہ افسوس ناک ہے۔ اور جسے ’اسلامی تاریخ‘ کا ’المیہ‘ کہنا چاہئے۔ مثلاً حدیث کے مجموعوں میں ایسی روایتیں بھی بکثرت ملتی ہیں جو الزام تراشی، دروغ بافی اور فحش نگاری کا مرقع ہیں ۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ ان مخرب اخلاق اور حیا سوز ’حدیثوں ‘ کو منسوب کیا جاتا ہے قرآن کی برگزیدہ شخصیتوں کی طرف (جیسے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن ، خصو صاً حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور اصحابِ رسول علیٰ الخصوص حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ )۔ یا پھر سب و شتم کے تیر چلائے جاتے ہیں تو اگلی آسمانی کتابوں کی مثالی ہستیوں پر جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام ، یوسف علیہ السلام ، داؤد علیہ السلام ، سلیمان علیہ السلام ، اور مریم علیہ السلام وغیرہم۔ غرض صحف ِاولیٰ کی منتخب شخصیتیں ہوں یا صحیفہ آخر کی پسندیدہ ہستیاں ، کسی کی بھی عزت و آبرو راویانِ حدیث کی مشق ستم کا نشانہ بننے سے نہ بچ سکی: ﴿ وَيْلٌ يَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِيْنَ﴾(المرسلات:۱۹) واضح رہے کہ یہ روایتیں مسیلمہ کذاب یا ملا معین واعظ کاشفی جیسے مشہور دروغ گویوں کی نہیں ہیں بلکہ عام مسلمانوں کے ’مایہ ناز‘ اور ’فخر روزگار‘ اماموں کے ’ثقہ‘ راویوں کی ہیں جو آج تقریباً ہزار سال سے ان کتابوں کی زینت بنی ہوئی ہیں جو ’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘ اور ’مثلہ معہ‘ سمجھی جاتی رہی ہیں … وائے گر درپس امروز بود فروائے !‘‘ ان ’تحقیقاتِ عالیہ‘ اور ’فرموداتِ طیبہ‘ کے بعد مدھو پوری ’محقق‘ صاحب ایک ’ٹھوس حقیقت‘ کا عنوان لگا کر مزید ارشاد فرماتے ہیں : ’’ہم مکلف ہیں ایمان لانے کے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر۔ اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے معنی ہیں اللہ کو حق جاننا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم (رسول اللہ) پرنازل شدہ کتاب (قرآن) کو ماننا۔ بخلاف اس کے محض سنی سنائی باتیں جو صدہا سال تک ہر کہ ومہ کی زبان پر بے روک ٹوک گشت کرتی رہی ہوں اور بالآخر انہیں محدثین نے بالکل غیر ذمہ دارانہ ذرائع سے معلوم کرکے اپنے بیاض میں نقل کیا ہو، ایسی غیر مستند اور غیر یقینی روایتوں کو اس صادق و مصدوق کی طرف منسوب کرکے انہیں ’سنت‘ کا نام دینا اور ان پر ایمان لانے کے لئے مسلمانوں کو مجبور کرنا سراسر بے انصافی اور انتہائی زیادتی ہے۔ مروّجہ انجیل کا نسخہ جسے خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے قلم بند کیا تھا (جو سفر و حضر ہر حال میں