کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 307
انکارِ حدیث کے اُصولی دلائل
اس ایک اصولی دلیل کا حال جان لینے کے بعد آئیے اب مدھوپوری محقق صاحب( کی زبانی چند اور اُصولی دلیلیں سنئے۔ اس کے بعد ہمارا جواب ملاحظہ فرمائیے۔ موصوف نے خود ہی سوال قائم کیا ہے اور خود ہی جواب بھی دیا ہے۔ لکھتے ہیں :
’’سوال:دین میں مصطلح ’حدیث‘ کا کیا مقام ہے؟ جواب:کچھ نہیں ،کیونکہ…
(ا) دین حق ہے اور ا س کی بنا علم و یقین پر ہے ۔ جس کی شہادت خود اللہ اور اس کے سچے فرشتے دیتے ہیں : ﴿ لٰکِنِ اللّٰهُ يَشْهَدُ بِمَا اُنْزِلَ إِلَيْکَ أنْزَلَهٗ بِعِلْمِه ٖوَالْمَلاَئِکَهُ يَشْهَدُوْنَ وَکَفٰی بِاللّٰهِ شَهِيْدًا﴾ (النساء: ۱۶۶)
(ب) دین عملاً محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والذین معہ کے ذریعہ بطریق احسن مکمل ہوچکا:﴿ اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الإسْلَامَ دِيْنًا﴾ (المائدۃ: ۳)
(ج) دین لوحِ قرآن پر لفظاً لفظاً اور حرفاً حرفاً بدرجہ اکمل محفوظ ہوگیا ہے:
﴿ بَلْ هُوَ قُرآنٌ مَّجِيْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ﴾ (البروج:۲۱، ۲۲)
برعکس اس کے ہماری حدیثیں سب کی سب یکسر ظنی، غیر یقینی اور روایت بالمعنی ہیں ۔ دین سے اس کا کیا تعلق؟:﴿ إنَّ الظَّنَّ لاَ يُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا﴾(النجم: ۲۸)یعنی حق کے مقابلے میں ’ظن‘ کا کوئی مقام نہیں ہے: ﴿ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ إلاَّ الظَّنَّ وَمَا تَهْوَی الاَنْفُسُ وَلَقَدْ جَآءَ هُمْ مِنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰی﴾(النجم:۲۳) یعنی ’’یہ لوگ محض ’ظن‘ کے پیچھے دوڑتے ہیں ، دراصل وہ اپنی من مانی کرتے ہیں ۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ان کو ہدایت پہنچ چکی ہے۔‘‘ اور ایک مقام پر تو خاص کرمؤمنوں کو خطاب کرکے زیادہ ظن و گمان سے کوسوں دور رہنے کا حکم صادر کردیا گیا ہے۔ بلکہ یہاں تک متنبہ کردیا گیا ہے کہ بعض قیاس آرائیاں ’صریح‘ گناہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہیں ۔﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ إنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إثْمٌ﴾ (الحجرات: ۱۲) (
وفاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سینکڑوں سال بعد بعض ایرانیوں نے ادھر ادھر کی محض سنی سنائی اَٹکل پچو باتوں (جنہیں اقوالِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابِ رسول سے منسوب کیا جاتا تھا) کا ذخیرہ جمع کرکے انہیں متفرق ومتضاد روایتوں کو ’صحیح حدیث‘کا نام دے دیا اور بعد والوں نے بعض دینی اور سیاسی مصالح کی بنا پراس کو ( بزعم خویش) جزوِ دین سمجھ لیا، اور اس طرح تفقہ فی الدین اور تدبر فی القرآن کا دروازہ اپنے اوپر بند کرلیا۔ اس سے قبل یہی روایتیں جب تک زید، عمرووبکر کی زبانوں پر بے روک ٹوک گشت کرتی رہیں ، ان کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی، لیکن قید ِکتابت میں آنے اور ان پر ’صحیح‘کا لیبل
[1] مدھوپور، بہار، ہندوستان کے ایک نام نہاد محقق، جنہوں نے مقالہ نگار کو احادیث پراعتراضات پر مبنی خطوط ارسال کئے۔
[2] ظن کے نام پر مغالطے کی وضاحت کے لئے پڑھیں : ’حدیث کے ظنی ہونے کا مفہوم‘ محدث، اگست ۲۰۰۱ء صفحہ ۱۱ تا ۲۲