کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 303
احادیث کے حجت ہونے کیلئے کتابت کی شرط کی حیثیت
منکرین حدیث کے اس اعتراض کا جواب تقریباً واضح ہوچکا ہے لیکن اس اعتراض کی قلعی کھولنے کیلئے ایک جدید مثال پیش خدمت ہے،جس سے یہ واضح ہوگا کہ کسی چیز کے معیار و حجت اور آئین و دستور ہونے کیلئے ’کتابت‘ (یعنی اس چیز کا پہلے سے لکھا ہونا) کوئی ضروری نہیں …برطانوی معاشرے کا اصل دستور وہ رسوم و رو ایات ہیں جو ان کے ہاں شروع سے چلی آتی ہیں اور یہ رسوم و روایات باقاعدہ تحریری شکل میں موجود نہیں بلکہ برطانوی معاشرے کا تعامل ہی اس دستور کا محافظ ہے۔ اگر کہیں ان کے ہاں لوگوں میں کسی چیز میں اختلاف پیدا ہوجائے تو اس کا فیصلہ کرنے کیلئے ان کی عدالتیں یہ دیکھتی ہیں کہ اس قضیہ میں برطانوی معاشرے کا رواج کیا کہتا ہے اور پھر اسی رواج کے مطابق عدالت فیصلہ کرتی ہے۔
یاد ر ہے کہ ہر معاشرہ اپنے معاملات میں اپنا ایک خاص معیار رکھتا ہے اور اس معاشرے کے لوگ اس معیار کو فطری طور پر قائم رکھتے ہیں لیکن جب کسی معاشرے میں بیرونی پیوند کاری یا دوسری قوموں اور علاقوں کے لوگوں کا اختلاط و امتزاج بڑھ جاتا ہے تو پھر وہ معاشرہ اپنے معاملات کے لحاظ سے معیاری نہیں رہتا کیونکہ دوسری قوموں کی عادات و اطوار بھی اس میں شامل ہونے لگتے ہیں اور ایسی صورت میں ان کے لئے اپنے معاشرے کو معیاری رکھنا ناممکن ہوجاتاہے۔ اسی طرح برطانیہ میں جب باہر کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد آکر آباد ہوگئی تو ان کے لئے معاشرتی رسوم و رو ایات کے معیار کو برقرار رکھنا مشکل ہوگیا اور اس مشکل کو حل کرنے کے لئے اب انہوں نے آہستہ آہستہ اپنا دستور تحریری طور پر مرتب کرنا شروع کردیا ہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک برطانیہ کا بنیادی دستور غیر تحریری شکل میں ہے۔ اس غیر تحریری دستور کے حوالہ سے کبھی کسی نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ چونکہ یہ تحریر شدہ نہیں ، لہٰذا قابل قبول نہیں ۔ بلکہ غیر تحریری ہونے کے باوجود اسے دستور کی حیثیت حاصل رہی ہے!!
اس سے یہ معلوم ہوا کہ اگر بالفرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کے دور میں احادیث تحریر شدہ نہ تھیں تو اس کے باوجود وہ حجت و معتبر تھیں کیونکہ عملی طور پر وہ مسلمان معاشرے کا حصہ بن چکی تھیں اور یہ بات بھی یاد رہے کہ فی الواقع شروع شروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل زندگی تحریری صورت میں نہیں ملتی لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی (سنت) کے جن حصوں (احکامات) کے ضائع ہونے کا خدشہ تھا، وہ فوری طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں لکھ لی گئی تھیں اور پھر تبع تابعین کے دور کے اختتام تک اسے خیر القرون کے معاشرتی تعامل سے تحریری شکل میں بھی مدوّن کرکے محفوظ کرلیا گیا۔[1] (مرتب : حافظ مبشر حسین لاہوری)
[1] علاوہ ازیں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اگر یہ شرط لگا دی جائے کہ صرف وہی چیز حجت و معتبر ہوتی ہے جو لکھی ہوئی ہو تو پھر بذاتِ خود قرآنِ مجید بھی اس شرط پر پورا نہیں اترے گا۔ اس لئے کہ قرآن مجید غیر مکتوب شکل میں وقفہ دَر وقفہ تیئس ۲۳/ سالوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دِل پر نازل ہوتا رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پڑھتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر اسے یاد کرلیتے۔ لہٰذا قرآنِ مجید کی موجودہ کتابی صورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہرگز ایسی نہ تھی بلکہ اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے پہلے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کتابی صورت میں جمع کیا۔ (مرتب)