کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 302
چیزیں تعامل سے ثابت ہیں اور یہ تعامل آج تک باقی ہے اور جن چیزوں میں اختلاف ہے مثلاً رکوع جانے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنا یا آمین جہری یا سری کہنا وغیرہ، ایسے مسائل کے بارے میں کہا کہ یہ تعامل سے ثابت نہیں ، حالانکہ تعامل کے نام پر ایسی تقسیم خود ساختہ ہے۔
تعامل امت اور روایت ِسنت ساتھ ساتھ
اللہ تعالیٰ کی خاص حکمت ہے کہ جس طرح خیر القرون (۲۲۰ھ تک) کا تعامل ایک اہمیت وحیثیت رکھتا ہے، اسی طرح خیرالقرون کے ختم ہونے تک احادیث کی باقاعدہ اور بنیادی کتابیں بھی تقریباً مدوّن ہوچکی تھیں مثلاً دنیا میں اس وقت حدیث کی سب سے پہلی کتاب ہمام بن مُنبہ (معروف تابعی اور حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے شاگردِ رشید) کا وہ صحیفہ ہے جو اس وقت چھپ چکا ہے۔پہلے یہ مخطوطے کی شکل میں محفوظ تھا جسے ڈاکٹر حمیداللہ رحمۃ اللہ علیہ (پیرس) نے تگ و دَو کرکے شائع کروایا۔ اسی طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ جن کی تاریخ پیدائش ۹۵ھ (یا ۹۷ھ) اور تاریخ وفات ۱۷۹ ھ ہے، ان کی حدیث کی معروف کتاب الموطأ آج بھی موجود اور معروف ہے اور یہ کتاب بھی خیرالقرون کے اختتام سے پہلے باقاعدہ کتابی شکل میں منظرعام پر آگئی تھی۔ اسی طرح امام بخاری کی تاریخ پیدائش بھی ۲۲۰ھ سے پہلے کی ہے۔[1]
اس طرح خیرالقرآن کے تعامل کے ساتھ ساتھ روایات کا کتابی صورت میں مدوّن ہوکر سامنے آنا نعم البدل قرار پاتا ہے۔ یعنی خیرالقرون کے بعد معاشرے غیر معیاری ہوتے چلے گئے لیکن تب تک کتابی صورت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک متبادل کے طور پر محفوظ ہوکر سامنے آچکی تھی اور پھر ان روایات کو باقاعدہ اسناد کے ساتھ جمع کیا گیا۔ اگرچہ اسناد کا یہ سلسلہ چھٹی اور ساتویں ہجری تک بھی چلتا رہا لیکن تیسری صدی ہجری میں مدوّن ہونے والی کتب ِاحادیث ہی زیادہ تر مراجع و مصادر کی حیثیت اختیار کرگئیں ۔ پھر لطف کی بات یہ ہے کہ ان کتابوں کے مؤلفین (محدثین) نے احادیث کو باسند روایت کیا ہے اور بعض محدثین نے اپنی کتابوں میں احادیث کی صحت کا خاص اہتمام بھی کیا ہے جبکہ دیگر محدثین نے مطلق طور پر رو ایات کو اسناد کے ساتھ پیش کردیا تاکہ بعد میں بھی اگر کوئی شخص کسی روایت کی تحقیق کرنا چاہے تو وہ اس روایت میں مذکور راویوں کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اُصولِ حدیث کی مدد سے بآسانی یہ تحقیق کرلے گا کہ کون سی روایت صحیح ہے اور کون سی ضعیف…؟
[1] اسی طرح عبدالرزاق بن ہمام صنعانی رحمۃ اللہ علیہ جن کی احادیث و آثار پر مشتمل ایک جامع کتاب مصنف عبدالرزاق کے نام سے معروف ہے، یہ بھی ۱۲۶ھ تا ۲۱۱ھ یعنی خیرالقرون کے دور کے محدث ہیں ۔ اسی طرح ابوبکر بن ابی شیبہ کی مصنف بھی اسی دور میں لکھی جاچکی تھی۔ کیونکہ ابن ابی شیبہ کی تاریخ وفات ۲۳۵ھ ہے۔ اسی طرح امام شافعی (۱۵۰ھ تا ۲۰۴ھ) کی حدیث کی کتاب بھی اس وقت لکھی جاچکی تھی اور آج بھی مذکورہ بالا تینوں کتابیں موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی کئی محدثین نے احادیث کی کتابیں اس دور میں تیار کرلی تھیں جن میں سے چند ایک آج بھی کتب خانوں میں موجود ہیں ۔ (مرتب)