کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 301
آکر دین سیکھتا اور اس کا کام کاج کوئی دوسرا صحابی سنبھالتا پھر دوسرے دن یہ صحابی کام کرتا اور دوسرے کو موقع دیتا کہ آج وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دے۔[1]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں میں عملی طور پر رَچ بس جانے کی وجہ سے محفوظ ہوتی چلی گئی۔ دوسرے الفاظ میں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پائے جانے والے عمومی اعمال و افعال جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں میں منتقل ہوگئے تو گویا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی عملی طور پر محفوظ ہوگئی اور اسے ہی ’تعامل‘ کہا جاتا ہے۔ یہی تعامل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو تسلسل کے ساتھ اگلے لوگوں میں نسل دَرنسل بڑھاتا رہا ہے۔ لیکن اس تعامل میں اگر کہیں کوئی غلطی، تبدیلی یا ا ختلاف پیدا ہوتا تو وہاں احادیث(روایات) ہی کو ’فیصلہ کن‘بنایا جاتا اور احادیث کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا جاتا کہ تعامل میں کون سی چیز احادیث کے مطابق ہے اور کون سی مخالف؟ گویا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو آگے بڑھانے کے لئے اصل اور بنیاد یہ تعامل ہی ہے لیکن اس تعامل میں بوقت ِاختلاف، روایات کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا۔
علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رہے کہ تعامل کا یہ سلسلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام اور تبع تابعین تک معیاری اور قابل اعتبار تسلیم کیا جاتا ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کہ’’خیر الناس قرني ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم‘‘( بخاری:۳۶۵۱) ’’لوگوں میں سے سب سے بہترین زمانہ میرا ہے پھر ان کا جو میرے بعد ہیں ، پھر اُن کا جو اُن کے بعد ہیں ۔‘‘ کے مطابق یہ معیاری معاشرہ تبع تابعین کے دور کے اَواخر یعنی تقریباً ۲۲۰ھ تک کا ہے۔[2] پھر اس کے بعد کے تعامل کی وہ حیثیت نہیں جو اس (۲۲۰ھ) سے پہلے کے تعامل کی ہے۔ لیکن اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ خیر القرون کا ہر تعامل حجت ہے بلکہ اس دور کا تعامل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو مثبت طور پر پیش کرنے میں بڑا کردار رکھتا ہے ۔ البتہ اگر کسی جگہ کوئی اختلاف یا تبدیلی نظر آئے تو وہاں فیصلہ کن حیثیت صحیح احادیث و روایات ہی کو حاصل ہوگی۔
یاد رہے کہ خیرالقرون کے تعامل کو تو ایک طرح سے بڑی اہمیت حاصل ہے مگر اس کے بعد چونکہ معاشرے معیاری نہ رہے، اس لئے بعد والے معاشروں کے تعامل کی کوئی حیثیت نہیں ۔ اس لئے جن لوگوں نے خیر القرون کے بعد والے معاشروں کے تعامل کو بھی حجت قرار دینے کی کوشش کی ہے وہ غلطی پر ہیں ۔ بلکہ بعض لوگوں نے بڑا عجیب فلسفہ پیش کیا ہے کہ جن چیزوں (مسائل) میں اختلا ف نہیں ، وہ تعامل میں شامل کردی ہیں مثلاً نماز کے رکوع، سجود، تشہد، قیام وغیرہ میں اختلاف نہیں ، اس لئے کہہ دیا کہ یہ
[1] اس سلسلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے یہ روایت بڑی اہم ہے کہ وہ فرماتے ہیں :
’’میں اور میرے ایک انصاری پڑوسی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (علم دین حاصل کرنے) جانے کے لئے باری مقرر کرلی کہ ایک دن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جایا کروں گا اور ایک دن وہ۔ جب میری باری ہوتی تو میں وحی سے متعلقہ معلومات لے کر آتا تو اپنے ساتھی کو ان سے آگاہ کرتا اور جب اس کی باری ہوتی تو وہ بھی اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتا اور جو وحی نازل ہوتی اس سے مجھے آکر آگاہ کرتا۔‘‘ (بخاری:۸۹) … مرتب
[2] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقف کو اختیار کیا ہے۔ (فتح الباری:۷/۶)