کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 300
و دیت وغیرہ کے حوالے سے بعض چیزیں لکھ کر اپنے پاس محفوظ کررکھی تھیں ۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے :
’’ابوجُحیفہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کے پاس کوئی کتاب ہے؟ انہوں نے جواب دیا : نہیں ، ا لبتہ ہمارے پاس یہ اللہ کی کتاب (قرآن مجید ) ہے یا وہ فہم و فراست ہے جومسلمان آدمی کو عطا کی جاتی ہے یا پھر یہ صحیفہ ہے۔ میں نے کہا کہ اس صحیفہ میں کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس میں دِیت اور قیدیوں کو چھڑانے کے مسائل ہیں اور اس میں یہ (حدیث) بھی (تحریر) ہے کہ کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔‘‘ (بخاری: کتاب العلم، باب کتابۃ العلم، حدیث نمبر۱۱۱)
2. اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات جمع کرنے کا بڑا شوق تھا اور وہ ہر وقت اسی کوشش میں رہتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے جب بھی کوئی بات نکلے میں فوراً اسے ضبط ِتحریر میں لے آؤں ۔ حتیٰ کہ لوگوں نے ان پر اعتراض کرناشروع کردیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کبھی غصے اور کبھی خوشی کی حالت میں ہوتے ہیں اور تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات لکھ لیتے ہو؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر میں احادیث لکھنے سے رُک گیا اور میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اکتب فوالذي نفسی بيده ما يخرج منه إلاحق‘‘ (احمد:۲/۱۶۲، ابوداود:۳۶۴۶)
(ہر حال میں )لکھا کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میری زبان سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا…
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی لکھی ہوئی چیزیں محفوظ رہیں اور وہ آگے اولاد دَر اولاد منتقل ہوتی گئیں ۔
3. یادرہے کہ ان چیزوں میں زیادہ نمایاں وہ احادیث تھیں جن کا تعلق زکوٰۃ وغیرہ سے تھا۔ عرب معاشرے میں زکوٰۃ کا زیادہ تر تعلق چوپایوں سے تھا، اس لئے کہ وہ لوگ زیادہ تر اونٹ، گائے اور بھیڑ بکریاں پالتے تھے اور انہیں زکوٰۃ کے لئے ان کے اَعدادوشمار کو مدنظر رکھنا پڑتا تھا۔ اس سلسلے میں یہ حدیث بڑی معروف ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے عاملوں کے لئے زکوٰۃ کے وہ احکامات تحریری طور پرروانہ کئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طے کردیئے تھے۔ (دیکھئے: بخاری: کتاب الزکوٰۃ، باب زکوٰۃ الابل، باب زکوٰۃ الغنم، باب العرض فی الزکوٰۃ)
حفاظت ِحدیث بذریعہ تعامل
اصحابِ صفہ کی یہ کوشش ہوتی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کی روشنی میں دین حاصل کریں ۔ اس وقت دینی تعلیم کے حصول کا کوئی باقاعدہ کتابی طریقہ مروّج نہیں تھا بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات سے دین سیکھتے اور جو شخص جس قدر زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا، وہ اسی قدر علم دین میں دوسروں کی بہ نسبت آگے ہوتا اور اس مقصد کے حصول کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپس میں باریاں طے کررکھی تھیں کہ ایک دن ایک صحابی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس