کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 299
(بہترین اَدوار) سے موسوم کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زندگیاں گزارتے رہے، اسی طرح تابعین نے ان کی اتباع کی اور تابعین کی انفرادی و اجتماعی زندگی کو دیکھتے ہوئے تبع تابعین نے اپنے آپ کو ان کے مطابق ڈھالنے کی پوری کوشش کی۔ حتیٰ کہ اگر کبھی کوئی خرابی، بدعملی یا کوتاہی نظر آتی تو فوراً ٹوک کر کہہ دیا جاتا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تو اس طرح تھا۔ جیسا کہ ایک مرتبہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ گٹھلیوں پر وِرد کررہے ہیں تو انہوں نے اس پر تعجب اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :
’’ويحکم يا أمة محمد ما أسرع هلکتکم، هؤلاء صحابة نبيکم متوافرون وهذه ثيابه لم تبل واٰنيته لم تکسر … أَو مفتتحوا باب ضلالة‘‘ (مسند دارمی، کتاب العلم (المقدمۃ) باب فی کراہیۃ أخذ الرأی، رقم ۲۱۵)
’’اے امت ِمحمد! تم پر افسوس کہ تم کتنی جلدی ہلاکت کی طرف جارہے ہو حالانکہ ابھی تو تم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے بھی ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برتن ابھی ٹوٹے ہیں … کیا تم گمراہی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہو؟‘‘
گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا اتنا خیال رکھا کہ گٹھلیوں کے استعمال کو ’بدعت‘ کہہ کر اس سے روکا اور اس عمل کو ناپسند کیا۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاشرہ تین نسلوں تک غالب رہا اور پھر اس معاشرے میں بہت سی تبدیلیاں اور بگاڑ دَر آئے۔ اس لئے تبع تابعین کے بعد والے دور یا معاشرے کو معیاری دور یا معیاری معاشرہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
حفاظت ِحدیث بذریعہ روایت و کتابت
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بیان و روایت کرنے کو ’حدیث‘ کہا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین کو اور تابعین، تبع تابعین کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور معمولات سے آگاہ کرنے کے لئے احادیث روایت کرتے رہے۔ اس دور میں لکھنے کا رواج اس قدر عام نہیں تھا۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لکھنے کی بجائے زبانی روایت اور حفظ کو ترجیح دیتے تھے اور یہ ایک تجرباتی بات ہے کہ انسان جس چیز کو زیادہ استعمال کرتا ہے، وہی چیز زیادہ قوی ہوجاتی ہے۔ اس طرح اس دور میں حافظہ انتہائی قوی ہوتاتھا لیکن اس کے باوجود ایسی چیزیں جن کا تعلق حساب و کتاب اور شماریات سے ہوتا، بعض صحابہ اسے لکھ لیا کرتے۔ نیز وہ صحابہ جنہیں یہ خدشہ ہوتا کہ آنحضرت کی بتائی ہوئی حدیثیں ہمیں بھول نہ جائیں ، وہ بھی احادیث لکھ کر انہیں محفوظ کرنے کی کوشش کرتے … :
1. حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لوگوں کے جھگڑوں کو حل کرنے میں زیادہ دلچسپی تھی، اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ:’’أقضاکم علي‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر) ’’علی رضی اللہ عنہ تم میں جھگڑوں کے فیصلے میں سب سے زیادہ ماہر ہیں ‘‘… چونکہ قضا میں ان کی خصوصی دلچسپی تھی، اس لئے انہوں نے قصاص