کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 297
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم۔ اور جو حکم وہ پہنچا رہا ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا حکم ہے۔
تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ لکھی ہوئی چیز خود کبھی قابل اعتماد نہیں ہوتی جب تک زندہ انسانوں کی شہادت اس کی توثیق نہ کرے۔ محض لکھی ہوئی چیز اگر ہمیں ملے اور ہم لکھنے والے کا خط نہ پہچانتے ہوں یا لکھنے والاخود نہ بتائے۔ یہ اس کی تحریر ہے یا ایسے شواہد موجود نہ ہوں جو اس امر کی تصدیق کریں کہ یہ تحریر اسی شخص کی ہے جس کی طرف منسوب کی گئی ہے تو ہمارے لئے وہ تحریر یقینی کیا معنی، ظنی بھی نہیں ہوسکتی۔‘‘ [1]
اس طویل اقتباس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کسی چیزکا لکھا ہوا ہونا ہی حجت نہیں جب تک زندہ انسانوں کی شہادت موجود نہ ہو۔ قرآن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تحریری صورت٭ میں نہ دیا گیا تھا۔ جبریل علیہ السلام زبانی ہی وحی لاتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی زبانی ہی صحابہ کو بتاتے تھے۔ آج بھی قرآن اس لئے حجت نہیں کہ یہ لکھا ہوا ہمارے پاس موجود ہے بلکہ زندہ انسانوں کی شہادت ہے جو مسلسل اس کو سنتے اور آگے بعد میں آنے والوں تک اسے پہنچاتے چلے آرہے ہیں ۔ اگر قرآن کے سلسلہ میں زندہ انسانوں کی شہادت حجت ہے تو سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حجت کیوں نہیں ۔
حوالہ جات ………………………………………………………………
۱) مجمع الزوائد جلد۱ صفحہ ۱۶۱ بحوالہ حفاظت حدیث از خالد علوی، ص۱۱۱
۲) صبحی صالح، ڈاکٹر، علوم الحدیث، ص۳۹
۳) القرآن
۴) خالدعلوی، حفاظت حدیث، ص ۵۹
۵) جامع بیان العلم ، جلد۱ صفحہ ۹۸ بحوالہ حفاظت حدیث از خالد علوی، ص۵۹
۶) بخاری، الجامع الصحیح۔کتاب العلم
۷) ابوداؤد، کتاب العلم
۸) بخاری، الجامع الصحیح
۹) بخاری، جلد۳، ص ۴۵، حدیث نمبر ۱۰۴
۱۰) بخاری، کتاب العلم، جلد۱ ، ص ۲۲
۱۱) خالد علوی، حفاظت حدیث، ص۱۲۰
۱۲) دارمی، مذاکرۃ العلم، جلد۱، ص۱۵۰
۱۳) دارمی، مذاکرۃ العلم، جلد۱ ، ص۱۵۰… (۲) سید منت اللہ رحمانی: کتابت ِحدیث، ص۳۰
۱۴) مشکوٰۃ کتاب العلم ، جلد۱ ، ص۷۹
۱۵) مسند احمد، جلد۲، ص۴۵
۱۶) مودودی سید ابوالاعلیٰ، منصب رسالت نمبر، ص۳۳۸
[1] مودودی سید ابوالاعلیٰ، منصب رسالت نمبر، ص۳۳۸