کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 296
کیا مکتوبہ چیز ہی قابل اعتماد ہے…؟
یہ بات کہی جاتی ہے کہ چونکہ حدیث لکھی ہوئی نہ تھی، عہد ِرسالت میں صرف حافظہ کی مدد سے ہی اس کو محفوظ رکھا جاتا تھا یا حدیث عہد ِرسالت یا عہد ِخلافت میں لکھوائی نہیں گئی تھی، اس لئے حجت نہیں ۔ سید مودودی نے اس کا جواب تفصیل سے دیا ہے، ہم ان کی کتاب سے اقتباس پیش کرتے ہیں:
’’قرآن کو جس و جہ سے لکھوایا گیا تھا وہ یہ تھی کہ اس کے الفاظ و معانی دونوں ہی من جانب اللہ تھے۔ اس کے الفاظ کی ترتیب ہی نہیں اس کی آیتوں ، سورتوں کی ترتیب بھی خدا کی جانب سے تھی۔ اس کے الفاظ کو دوسرے الفاظ سے بدلنا بھی جائز نہ تھا۔ وہ اس لئے نازل ہوا تھا کہ لوگ انہی الفاظ میں اسی ترتیب کے ساتھ اس کی تلاوت کریں ۔ سنت کی نوعیت اس سے مختلف تھی۔ اس کے الفاظ قرآن کے الفاظ کی طرح بذریعہ وحی نازل نہیں ہوئے تھے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنی زبان سے ادا کیا تھا۔پھر اس کا بڑا حصہ ایسا تھا جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصروں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا۔ مثلاً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ایسے تھے، زندگی ایسی تھی، فلاں موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں کام کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، تقریریں نقل کرنے میں کوئی پابندی نہ تھی کہ انہیں سامعین لفظ بلفظ نقل کریں ۔ بلکہ اہل زبان سامعین کے لئے یہ جائز تھا اور وہ اس پر قادر بھی تھے کہ آپ کی بات سن کر معنی و مفہوم بدلے بغیر اسے اپنے الفاظ میں بیان کردیں ۔
حضور کے الفاظ کی تلاوت مقصود نہ تھی بلکہ اس تعلیم کی پیروی مقصود تھی جو آپ نے دی تھی۔ احادیث میں قرآن کی آیتوں اور سورتوں کی طرح یہ ترتیب محفوظ رکھنا بھی ضروری نہ تھا کہ فلاں حدیث پہلے ہو اور فلاں بعدمیں ، اس بنا پر احادیث کے معاملہ میں یہ کافی تھا کہ لوگ انہیں یاد رکھیں اور دیانت کے ساتھ انہیں لوگوں تک پہنچائیں ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کسی چیز کے حجت ہونے کے لئے اس کا لکھا ہوا ہونا ضروری نہیں ہے ۔ اعتماد کی اصل بنیاد اس شخص یا اشخاص کابھروسہ کے قابل ہونا ہے، جس کے ذریعہ بات دوسروں تک پہنچے خواہ مکتوب ہو یا غیر مکتوب۔ خود قرآن اللہ تعالیٰ نے آسمان سے لکھوا کر نہیں بھیجا بلکہ نبی کی زبان سے اس کو بندوں تک پہنچایا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی پورا انحصار اس بات پر کیا کہ جو لوگ نبی کو سچ مانیں گے وہ نبی کے اعتماد پرقرآن کو بھی کلام الٰہی مان لیں گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی تبلیغ و اشاعت تھی، زبانی تھی۔ آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم مختلف علاقوں میں جاکر تبلیغ کرتے۔ وہ قرآن کی سورتیں لکھی ہوئی نہ لے جاتے تھے۔ لکھی ہوئی آیات اور سورتیں تو اس تھیلے میں پڑی رہتی تھیں جس کے اندر آپ انہیں کاتبانِ وحی سے لکھوا کر ڈال دیا کرتے تھے۔ باقی ساری تبلیغ واشاعت زبانی ہوتی تھی۔
ایمان لانے والے، صحابہ کے اعتماد پر تسلیم کرتے تھے کہ جو کچھ وہ سنا رہا ہے، وہ اللہ کا کلام ہے