کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 295
حدیث سنائی تو آپ نے ان کو ڈانٹا اور کہا کہ اگر تم اس کی شہادت پیش نہ کرسکے تو میں تمہیں سزا دوں گا۔ (6) ماحول کا اثر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے اسلامی ریاست کی فضا ایسی بن گئی تھی کہ تمام صحابہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ کی ایک گہری چھاپ نظر آتی تھی۔ روایات محض زبانی ہی نہ تھیں بلکہ اسوۂ حسنہ کے آثار و نقوش ہر طرف نظر آتے تھے۔ جس بنا پر حافظہ کی غلطی سے یا اپنے ذاتی خیالات و تعصبات کی بنا پر کوئی نرالی بات پیش کرنا بھی محال تھا۔ صحابہ کے دور میں کوئی ایسی نظیر نہیں ملتی کہ غلط طور پر آپ کی طرف کوئی چیز منسوب کی گئی ہو۔ (7) تقویٰ اور خوفِ الٰہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی صحابہ کی انفرادی زندگیوں پر بڑی گہری چھاپ تھی۔ یہ سابقون الأولون کی جماعت تقویٰ کے اس مقام پر فائز تھی کہ حدیث کی روایت میں سہل انگاری کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ تقویٰ اور خوفِ الٰہی کی بنیاد پر روایات جو ایک دوسرے کو منتقل ہوتی تھیں ، ان میں سرمو فرق نہ پایا جاتا تھا۔ (8) خوشنودیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حفظ ِحدیث اور اس کی تبلیغ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور منشائے قلبی تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور خوشنودی حیاتِ صحابہ کا عظیم سرمایہ تھا۔ صحابہ خوب جانتے تھے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی رکھنا حفظ ِایمان کے لئے ضروری ہے۔ ایک واقعہ سے اندازہ لگائیں کہ ہجرت کے بعد ایک شخص نے ایک پرتکلف مکان بنایا اور اسے چونا گچ کردیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اِدھر سے گزر ہوا تو فرمایا یہ کس کا مکان ہے؟گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا تو جب صحابی کومعلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمایا ہے تو اس نے اس مکان کو منہدم کردیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر اس کی خبر دی۔ ثمامہ بن اثال جب مسلمان ہوا تو اس نے یمن جاکر اہل مکہ کا غلہ بند کردیا اور کہا کہ جب تک اِذن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوگا، غلہ بند رہے گا۔ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے از راہِ عنایت اجازت دے دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تورات کی ورق گردانی پر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے توجہ دلائی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’رضيت باللَّه ربا وبالإسلام دينا و بمحمد نبيًا‘‘ ’’میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوں ۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم یہ سمجھتے اور اچھی طرح جانتے تھے کہ خدا کے رسول کی رضا میں خدا کی رضا ہے۔ خوشنودی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حفظ ِحدیث میں احتیاط سے کام لیا جاتا تھا۔